کراچی : سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی (SBTA) میں غیر قانونی تعیناتی کا تنازع ایک بار پھر سنگین صورت اختیار کر گیا ہے کیونکہ محکمہ صحت کی سینئر ویمن میڈیکل آفیسر ڈاکٹر در ناز جمال آج 5 دسمبر کو باضابطہ طور پر ریٹائر ہو گئی ہیں مگر محکمہ صحت سندھ نے پس پردہ ان کی نئی غیر قانونی توسیع کی تیاریاں تیز کر دی ہیں حالانکہ قانون، قواعد، کابینہ اعتراضات اور ماہرین کی رائے سب ان کے خلاف ہیں۔
باخبر افسران کے مطابق ڈاکٹر در ناز جمال کی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انہیں دوبارہ کنٹریکٹ پر رکھنے کے لیے فائلیں اور سفارشات پہلے ہی مکمل کی جا چکی ہیں حالانکہ سندھ سیف بلڈ ٹرانسفیوژن ایکٹ صاف کہتا ہے کہ اس انتہائی حساس اور تکنیکی عہدے پر صرف وہی ڈاکٹر تعینات ہو سکتا ہے جو پیتھالوجی یا بلڈ بینکنگ میں پوسٹ گریجویٹ ہو اور خون کی اسکریننگ، انفیکشن کنٹرول اور بلڈ بینکنگ کے تمام مراحل کا مکمل ماہر ہو۔ اس کے باوجود سیاسی دباؤ پر نااہلی کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
سندھ سیف بلڈ ٹرانسفیوژن ایکٹ 2017 کے مطابق SBTA کا سیکریٹری ایک سینئر پیتھالوجسٹ ہونا لازمی ہے مگر ذرائع کے مطابق محکمہ صحت اس قانونی پابندی کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ انہیں برقرار رکھنے کے لیے فعال ہو چکا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ کابینہ نے پہلے بھی ان کی اہلیت پر باقاعدہ اعتراض درج کیا تھا۔
اس غیر قانونی اقدام کی صوبے کی بڑی ڈاکٹر تنظیمیں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، پیپلز ڈاکٹر فورم، سندھ ڈاکٹرز اتحاد اور پاکستان ایسوسی ایشن آف پیتھالوجسٹس نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی جیسے حساس ادارے میں نااہل فرد کو دوبارہ بٹھانا شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ اقدام غیر قانونی، غیر اخلاقی اور عوام کے تحفظ کے خلاف ہے۔
افسران کے مطابق ڈاکٹر در ناز جمال کے گزشتہ دور میں ایچ آئی وی کیسز میں اضافہ، ہیپاٹائٹس بی اور سی کی شرح میں تیزی، غیر معیاری خون کی فراہمی اور ریگولیٹری ناکامیوں نے پورے نظام کی ساکھ کو متاثر کیا مگر اس کے باوجود انہیں برقرار رکھنے کی کوشش نے محکمہ صحت میں شدید ہلچل پیدا کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد جیسے ہی توسیع کا معاملہ کابینہ یا سیکریٹریٹ میں پیش ہوگا اس تنازع کے مزید بھڑکنے کا خدشہ ہے۔ ڈاکٹر تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ اس اقدام کے خلاف صوبے بھر میں سخت احتجاج کیا جائے گا جبکہ قانونی ماہرین بھی اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کے قابل قرار دے رہے ہیں۔


