کراچی : پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کراچی ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں آگئی ہے جہاں تنظیم کے حالیہ انتخابات برائے 2026-2027 نے شفافیت، جمہوریت اور نمائندگی کے تمام دعوؤں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ انتخابات دراصل انتخاب نہیں بلکہ ’’پہلے سے طے شدہ فہرست کی سرکاری منظوری‘‘ ثابت ہوئے کیونکہ اہم عہدوں پر وہی پرانے، آزمائے ہوئے اور مخصوص افراد کو دوبارہ بٹھا دیا گیا جبکہ نوجوان ڈاکٹرز کی نمائندگی ایک بار پھر مکمل طور پر نظرانداز کر دی گئی۔
صدر کے عہدے پر محکمہ صحت سے ریٹائرڈ 62 سالہ ڈاکٹر محمد اسماعیل میمن کو منتخب کیا گیا جنہیں ڈاکٹرز پچھلے کئی برسوں سے ’’پی ایم اے کی مستقل صدارت لائن‘‘ کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر برادری کا کہنا ہے کہ جب تنظیم کو فعال، پالیسی سازی میں متحرک اور جدید طبی مسائل کو سمجھنے والی قیادت کی ضرورت ہے وہاں ایک ریٹائرڈ شخصیت کو دوبارہ نمایاں مقام پر لانا پی ایم اے کراچی کو محض ’’سوشل کلب‘‘ بنانے کے مترادف ہے۔
مزید حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ ایگزیکٹو کمیٹی کے 39 اراکین بھی ’بلامقابلہ‘ منتخب ہوئے جس نے پورے انتخابی عمل کو ’’گٹھ جوڑ‘‘ اور ’’سیٹ شیئرنگ‘‘ کا نتیجہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹرز حلقے اسے ’’مک مکا الیکشن‘‘ قرار دے رہے ہیں جہاں پہلے سے طے شدہ نام بغیر کسی مقابلے کے سامنے لے آئے گئے۔

نائب صدور ڈاکٹر الطاف حسین کھتری اور ڈاکٹر ثناء یاسر، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر شاہد ابراہیم ممسا، جوائنٹ سیکریٹری ڈاکٹر محمود احمد خان اور فنانس سیکریٹری ڈاکٹر عبد الرحمن کی نامزدگی نے بھی تنظیم کے اندر ’’اسی ٹولے کی واپسی‘‘ کا تاثر مزید مضبوط کر دیا ہے۔ ایڈیٹرز اور دیگر عہدیدار بھی انہی مخصوص لوگوں میں سے چنے گئے ہیں جن پر عرصۂ دراز سے قبضہ برقرار رکھنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
سینئر اور نوجوان ڈاکٹرز اس بار کھلے لفظوں میں اظہارِ ناراضی کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی ایم اے کراچی ’’ڈاکٹرز کی نمائندہ تنظیم‘‘ سے زیادہ چند شخصیات کا نجی کلب بن چکی ہے جہاں فیصلہ سازی، عہدوں کی بندر بانٹ اور مفادات کی سیاست چھپی نہیں، کھلے عام ہوتی ہے۔
ڈاکٹروں نے اس ’’غیر نمائندہ اور غیر شفاف‘‘ عمل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم اے کراچی میں حقیقی جمہوری اصلاحات، آزادانہ انتخابات اور نوجوان ڈاکٹرز کی شمولیت کے بغیر اپنا وقار مزید کھو دے گی۔


