کراچی: وزیر برائے یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ اور پرو چانسلر ڈاؤ یونیورسٹی محمد اسماعیل راہو نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی مالی اور انتظامی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ متعدد چیلنجز کے باوجود ادارہ اپنے معاملات سرکاری فنڈز کے ساتھ ساتھ خود کے وسائل سے بھی مؤثر طریقے سے چلا رہا ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی کی سینیٹ کے 11ویں اجلاس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر کسی بھی سرکاری ادارے کے دورے سے قبل بیل آؤٹ پیکج کا مطالبہ سامنے آنے کا خدشہ ہوتا ہے، مگر ڈاؤ یونیورسٹی اس تاثر کی نفی کرتی ہے اور اپنی مضبوط مالی حکمت عملی کے باعث قابلِ تقلید مثال بن چکی ہے۔
اجلاس میں وائس چانسلر پروفیسر نازلی حسین، پرو وائس چانسلر پروفیسر جہاں آرا حسن اور رجسٹرار ڈاکٹر اشعر آفاق بھی موجود تھے۔ اسماعیل راہو نے یونیورسٹی کے اساتذہ، انتظامی عملے اور تدریسی ٹیم کی محنت کو سراہتے ہوئے کہا کہ بیماریوں میں اضافے، مریضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور مالی مشکلات کے باوجود سینیٹ و سنڈیکیٹ کے اجلاسوں کا باقاعدگی سے انعقاد ادارے کی مضبوط گورننس کا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں صحت کی سہولیات اور طبی تعلیم دونوں کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے اور یہ امر قابل فخر ہے کہ سندھ بھر کے طلبہ — خواہ وہ ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس یا دیگر پروگرامز کے خواہشمند ہوں — ڈاؤ یونیورسٹی کو اپنی پہلی ترجیح سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ اعتماد تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے لیے اعزاز ہے۔
پرو چانسلر نے مزید کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی نے برسوں کی محنت سے ایسے قابل ڈاکٹرز، نرسز اور ہیلتھ پروفیشنلز تیار کیے ہیں جو ملک بھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے کینسر کیئر، بون میرو ٹرانسپلانٹ، گردے اور جگر کی پیوندکاری جیسے شعبوں میں ادارے کی نمایاں کامیابیوں کو بھی سراہا۔
اس سے قبل وائس چانسلر پروفیسر نازلی حسین نے سالانہ کارکردگی رپورٹ پیش کی، جس میں 2024–25 کے دوران تعلیمی ترقی، تحقیقی کارکردگی اور صحت کی خدمات میں نمایاں پیش رفت کو اجاگر کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی نے متعدد نئے پروگرامز متعارف کرائے جن میں ایم ایس مینجمنٹ سائنسز، ایم فل میڈیکل ٹیکنالوجی، پی ایچ ڈی فارماسیوٹیکل کیمسٹری اور پی ایچ ڈی فزیکل تھراپی شامل ہیں۔

ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال میں جدید ٹیکنالوجی کی تنصیب، تشخیصی و امیجنگ مشینری کی اپ گریڈیشن، نیوکلیئر امیجنگ اور جدید ریڈیوتھراپی سہولیات کا اضافہ بھی رپورٹ کا حصہ تھا۔ ادارے نے پہلی بار متعدد ہائی امپیکٹ کلینیکل پروگرامز متعارف کرائے جبکہ کارڈیک اور پلمونری ری ہیبیلیٹیشن کی او پی ڈی بنیادوں پر سہولیات بھی شروع کی گئیں


