اسلام آباد : ڈررگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان کی جانب سے ڈاکٹروں کو ادویات کے جنرک ناموں سے تجویز کرنے کی پالیسی کو عوامی صحت کے لیے ایک انقلابی اور بروقت اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کی جانب سے اس فیصلے پر دیے جانے والے ردعمل کو ماہرین صحت نے غیر ضروری اور حقیقت سے بعید قرار دیا ہے۔
ڈریپ کی پالیسی کا بنیادی مقصد ادویات کو عوام کے لیے سستا اور قابلِ رسائی بنانا ہے، تاکہ مریض مہنگے برانڈز کے بجائے وہی مؤثر دوا کم قیمت پر حاصل کر سکیں۔ دنیا بھر میں جنرک دوا تجویز کرنے کا رواج عام ہے، اور عالمی ادارہ صحت بھی اس ماڈل کی توثیق کر چکا ہے۔
ماہرین کے مطابق، پی ایم اے کا یہ مؤقف کہ ملک میں فارماسسٹ کی کمی کے باعث جنرک دوا کی پالیسی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، دراصل ایک غیر سائنسی اور خوف پھیلانے والا بیانیہ ہے۔ ایک سینئر فارماسولوجسٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ جنرک دوا نہیں، بلکہ دوا کی فراہمی اور تقسیم کا نظام ہے، جسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے، نہ کہ پالیسی کو روکنے کی۔
ڈریپ حکام کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے مارکیٹ میں غیر ضروری مہنگی دواؤں کی اجارہ داری ختم ہوگی، اور دوا ساز کمپنیوں کا منافع پر مبنی دباؤ کم ہوگا، جس کا براہِ راست فائدہ عام مریضوں کو ہوگا۔ حکام نے یہ بھی واضح کیا کہ جنرک دوا تجویز کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ معیاری کنٹرول ختم کر دیا گیا ہے۔ فارماسسٹ کی موجودگی کے قانون پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور ڈسپینسنگ کے نظام کو بتدریج بہتر کیا جائے گا۔”
طبی حلقے اسے ایک مثبت تبدیلی قرار دے رہے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صحت کے نظام کو زیادہ مؤثر، سستا اور شفاف بنانے میں مدد دے گی۔ اس پالیسی کا مقصد برانڈڈ دواؤں کی اجارہ داری ختم کر کے مارکیٹ کو اوپن اور مسابقتی بنانا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ایم اے کو رکاوٹ بننے کے بجائے اصلاحی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔