کراچی : پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کی جانب سے ڈاکٹروں کو ادویات جنرک ناموں سے تجویز کرنے کی ہدایت پر شدید تحفظات اور تنقید کا اظہار کرتے ہوئے اسے “صحتِ عامہ کے لیے بڑا خطرہ” قرار دیا ہے۔ پی ایم اے نے اسے ایک ایسی ناقص، غیر منصوبہ بند اور عجلت میں اٹھایا گیا قدم قرار دیا جو مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
پی ایم اے کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں، جہاں ملک بھر میں بیشتر میڈیکل اسٹورز پر مستند فارماسسٹ موجود نہیں، وہاں ایسی پالیسی کسی بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ پی ایم اے کے مطابق، فارمیسیز کی بڑی تعداد ایسے افراد کے زیر انتظام ہے جو دوا کی بنیاد سے بھی واقف نہیں، ایسے میں جنرک دوا تجویز کرنے کی پالیسی کے تحت غلط یا جعلی ادویات کی ترسیل کا خطرہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔
مزید برآں، پی ایم اے نے سوال اٹھایا کہ کیا DRAP اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ ملک کے ہر میڈیکل اسٹور پر رجسٹرڈ، تربیت یافتہ فارماسسٹ موجود ہے؟ اگر نہیں، تو یہ پالیسی عوام کو سستی دوا دینے کے بجائے انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہوگی۔ تنظیم نے واضح کیا کہ “بغیر ریگولیٹری میکانزم کے، یہ اقدام صرف دوا فروشوں کی چاندی کا سبب بنے گا، جبکہ مریضوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی جائیں گی۔”
پی ایم اے نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پالیسی دراصل ذمہ داری کو ڈاکٹروں سے ہٹا کر ڈسپنسرز اور غیر تربیت یافتہ دکانداروں پر ڈالنے کی کوشش ہے، جس سے عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔
ادھر پی ایم اے نے یہ بھی واضح کیا کہ عوام کی طبی مشکلات کا اصل حل جنرک دوا کے نام پر خطرناک پالیسی لانا نہیں بلکہ ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کو روکنے کے لیے ایک مؤثر نظام لانا ہے۔ تنظیم کا مطالبہ ہے کہ DRAP اس پالیسی کو فوری طور پر واپس لے اور پہلے فارماسسٹ کا نظام درست کرے، اس کے بعد ہی کسی قسم کی جنرک دوا پالیسی پر عملدرآمد ممکن ہوگا۔