لاہور : لاہور کے تاریخی میو اسپتال کے شعبہ امراض قلب میں جاری تین ماہ طویل تنازع بالآخر دونوں مرکزی شخصیات کی محکمہ صحت کو واپسی پر ختم ہو گیا۔ اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے پروفیسر ڈاکٹر عامر بندیشہ اور رجسٹرار ڈاکٹر شرجیل اکرم کو ریپیٹری ایٹ کر لیا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس اہم اقدام کی بنیاد اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی اور ڈسپلنری کمیٹی کی مفصل انکوائری رپورٹس پر رکھی گئی۔ دونوں کمیٹیوں نے فریقین کو مختلف نوعیت کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیا۔
ڈاکٹر عامر بندیشہ کو دسمبر 2024 میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی / میو اسپتال میں پروفیسر آف کارڈیالوجی تعینات کیا گیا تھا۔ وہ شعبے میں سخت نظم و ضبط اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی کے قائل تھے، جس پر رجسٹرار ڈاکٹر شرجیل اکرم (چیئرمین وائی ڈی اے پنجاب) سے ان کا ٹکراؤ ہوا۔
معاملہ اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب پروفیسر بندیشہ نے رجسٹرار کے خلاف ڈیوٹی سے غیر حاضری اور نافرمانی کی شکایت درج کروائی۔ اس دوران ہسپتال میں کشیدہ ماحول قائم رہا، دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات، گالم گلوچ اور مبینہ دھمکیوں کے واقعات سامنے آئے۔
صورتحال اُس وقت سنگین رخ اختیار کر گئی جب چند خواتین پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹروں نے پروفیسر بندیشہ پر ہراسانی کا الزام عائد کیا، جس نے نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی میڈیکل کمیونٹی میں بھی ہلچل مچا دی۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایاز محمود نے ابتدائی طور پر معاملے کو افہام و تفہیم سے سلجھانے کی کوشش کی، تاہم کشیدگی کم نہ ہو سکی۔ بالآخر معاملہ دو علیحدہ انکوائری کمیٹیوں کے سپرد کیا گیا۔
اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی (سربراہی: پروفیسر ڈاکٹر نازش عمران) نے خواتین پی جی آرز کی شکایات پر تحقیقات کیں جبکہ ڈسپلنری کمیٹی (سربراہی: پرو وائس چانسلر ڈاکٹر محمد معین) نے ڈاکٹر شرجیل کی مبینہ بدتمیزی اور احتجاجی رویے کی جانچ کی۔
دونوں کمیٹیوں کی رپورٹس کے مطابق دونوں افسران قصوروار پائے گئے۔ بعد ازاں انہیں محکمہ صحت پنجاب کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ اسپتال کا نظم و ضبط بحال ہو سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تنازع نے میو ہسپتال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی جیسی تاریخی ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا، جبکہ مریضوں کو علاج کی معیاری سہولیات کی فراہمی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
محکمہ صحت پنجاب اب دونوں افسران کے خلاف مزید کارروائی یا تبادلے سے متعلق فیصلہ کرے گا۔ ادارے کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ مستقبل میں ایسے تنازعات سے بچنے کے لیے ہسپتالوں میں بہتر نظم و ضبط، پیشہ ورانہ تربیت اور باہمی احترام کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔