اسلام آباد (ہیلتھ ٹائمز) ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان (TIP) نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملک میں دواؤں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے تناظر میں جنیرک دواؤں کی پالیسی پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنائے، تاکہ عوام اور قومی خزانے کو درپیش مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ برانڈڈ (branded) اور نان برانڈڈ (generic) دواؤں کی قیمتوں میں بڑا فرق ہر سال قومی خزانے اور عوام کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا رہا ہے۔ خط میں خاص طور پر نشاندہی کی گئی ہے کہ زیادہ تر ڈاکٹر اب بھی نسخوں پر برانڈ نیم لکھ رہے ہیں، حالانکہ پاکستان ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (DRAP) نے 2021 میں واضح ہدایات جاری کی تھیں کہ صرف دواؤں کے جنیرک نام تجویز کیے جائیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہ خط وفاقی وزیر برائے قومی صحت سید مصطفیٰ کمال کے نام تحریر کیا ہے، جس میں ڈریپ کی پالیسی پر عملدرآمد میں ناکامی پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق، ایک ہی دوا اگر برانڈ کے تحت تجویز کی جائے تو اس کی قیمت دو سے پانچ گنا زیادہ ہو سکتی ہے، جبکہ اسی دوا کا جنیرک ورژن معیاری ہونے کے باوجود کئی گنا سستا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں ایک بڑی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، وہاں جنیرک دواؤں کی پالیسی پر عدم عملدرآمد کو عوامی صحت کے ساتھ ناانصافی قرار دیا جا رہا ہے۔
طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کا اثر و رسوخ اور برانڈ مارکیٹنگ ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دواؤں کے انتخاب پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ دوسری جانب ریگولیٹری اداروں کی کمزور نگرانی اس عمل کو جاری رکھنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر ڈریپ کی 2021 پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، سرکاری اور نجی اسپتالوں میں ڈاکٹروں کو جنیرک دواؤں کے نسخے لکھنے کا پابند بنایا جائے، دوا ساز کمپنیوں کے ساتھ شفاف تعلقات کے لیے واضح ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے۔