کراچی : سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن سے بدعنوانی، بھتہ خوری اور ناقص کارکردگی کے سنگین الزامات پر برطرف کیے جانے والے ڈاکٹر سید ابرار حسین شاہ کے خلاف اب محکمہ صحت سندھ کی خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق، ڈاکٹر ابرار جو تاحال محکمہ صحت میں میڈیکل آفیسر کے طور پر تعینات ہیں اور ان کی اصل پوسٹنگ ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی میں ہے، انہوں نے SHCC میں کنٹریکٹ پر تقرری کے باوجود نہ صرف وہاں سے مکمل تنخواہ لی بلکہ اسی دوران محکمہ صحت سے بھی باقاعدہ تنخواہ لیتے رہے۔ یعنی ایک سرکاری افسر نے بیک وقت دو اداروں سے تنخواہ لی، جو کہ واضح طور پر “ڈوئل سیلری” کی بدعنوانی میں شمار ہوتا ہے۔
اب جب کہ ڈاکٹر ابرار کی ویڈیو سمیت شواہد سامنے آ چکے ہیں جن میں مبینہ طور پر بھتہ لیتے دیکھا جا سکتا ہے اور سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن نے انہیں باضابطہ طور پر مالی بے ضابطگی، اختیارات کے ناجائز استعمال، اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی بنیاد پر نوکری سے فارغ کر دیا ہے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محکمہ صحت ان کے خلاف محکمانہ انکوائری شروع کرے گا؟ کیا ڈبل تنخواہ کے تمام واجبات ریکور کیے جائیں گے؟ کیا بھتہ خوری کے ثبوت ملنے پر مقدمہ درج کیا جائے گا؟ کیا سیکریٹری صحت ریحان اقبال بلوچ اور ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی ڈاکٹر ثاقب شیخ اس پر ایکشن لیں گے یا یہ معاملہ بھی فائلوں میں دفن ہو جائے گا؟
ہیلتھ ٹائمز کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ڈاکٹر ابرار نے نہ صرف قانونی جواز کے بغیر کلینکس پر چھاپے مارے بلکہ کئی رجسٹرڈ ڈاکٹروں سے مبینہ بھتہ بھی لیا، اور رشوت نہ دینے والوں کے کلینک بند کیے۔ SHCC نے اپنے نوٹیفکیشن میں انہیں “غیر مطلوب رویے اور ناقص کارکردگی” پر برطرف کیا ہے، مگر محکمہ صحت سندھ نے اب تک نہ انہیں معطل کیا ہے، نہ انکوائری کا آغاز کیا ہے اور نہ ہی کوئی آفیشل مؤقف جاری کیا ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اگر ایسے افسران کو کھلا چھوڑ دیا جائے تو بدعنوانی کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ اور بڑھے گا۔ اب تمام نگاہیں سیکریٹری صحت ریحان اقبال بلوچ پر ہیں کہ وہ اس سنگین معاملے پر کیا قدم اٹھاتے ہیں۔
ہیلتھ ٹائمز مطالبہ کرتا ہے کہ فوری طور پر ڈاکٹر ابرار کے خلاف محکمانہ تحقیقات کا آغاز کیا جائے، دوہری تنخواہ کی مکمل ریکوری کی جائے، ویڈیو ثبوتوں کی بنیاد پر قانونی کارروائی کی جائے، ان کے دور میں بند کیے گئے کلینکس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ محکمہ صحت سندھ بدعنوان افسران کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔