میو ہسپتال لاہور میں یوم آزادی پاکستان کی سہ روزہ تقریبات کا آغاز ہوا۔ تقریب میں مولانا ظفر علی خان کے پوتے مسعود علی خان، فیکلٹی اور طلبہ نے شرکت کی۔
اس موقع پر پروفیسر اسد اسلم خان نے کہا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ طلبہ کو پاکستان کے بننے کے اغراض و مقاصدسے آگاہ کرنے کے ساتھ ان کی کردار سازی پر کام کریں۔
انہوں اس موقع پر میڈیکل کے شعبے میں اخلاقیات کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ قائد اعظم کے ایک معالج نے اس بات کو اخلاقی طور پر پوشیدہ رکھاکہ وہ ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہیں۔ درحقیقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن یہ حقیقت جان جاتے تو پاکستان کے بننے میں تاخیر کرتے اور پاکستان معرض وجود میں نہ آتا۔
پروفیسر محمد خلیل نے سامعین سے تاریخی حوالہ جات میں نسیم حجازی اور کرشن چندر کی کتابوں کا ذکر کیا جنہیں پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کو بنانے کیلئے خاک و خون سے گزرنا پڑا۔
تقریب کے موقع پر شہید کیپٹین عکاشہ طلال کے والد پروفیسر محمد سلیم چوہدری نے اپنے بیٹے کی شہادت کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔ ان کے بیٹے نے 2020 میں ایس ایس جی ٹریننگ کے دوران شہادت پائی۔
مولانا ظفر علی خان کے پوتے مسعود علی خان نے بھی بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور مولانا ظفر علی خان کے پاکستان بننے اور اس کے بعد مشکلات میں ان کے غیر متزلزل کردار پر گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا مولانا ظفر علی خان کہ ذات کی بہت سی جہتیں تھیں، سیاست، شاعری، ادب، صحافت مگر ان کی ذاتی زندگی بہت سادہ تھی۔
چودہ سال قید وبند کی صعوبت کے باوجود پاکستان کیلئے اپنا مشن انہوں نے جاری رکھا۔ ہفت روزہ اخبار”زمیندار” سے مولانا ظفر علی خان نے اپنی صحافت کے کرئیر کا آغاز کیا اور اس شعبے کے ذریعے بھی پاکستان کی خدمت کرتے رہے۔
پرنسپل کالج، پروفیسر زاہد کمال صدیقی نے شہید کیپٹین محمد عکاشہ طلال کو خراج تحسین پیش کیا اور مہمانان خصوصی کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے طلبہ کو پاکستان کی جغرافیائی حدود کی اہمیت، دنیا کی دوسری بڑی چوٹی کے ٹو، کراکرم ہائی وے، عبد الستار ایدھی کا سوشل ویلفیئر میں مثالی کام، سکواش میں جہانگیر خان اور جان شیر خان کی بیمثال کارکردگی، ارشد ندیم کی کومن ویلتھ میں نیزہ بازی میں جیت، ملک میں بننے والے دنیا کے بہترین سرجیکل انسٹرومنٹس، سیالکوٹ کی کھیلوں کی انڈسٹری کے ساتھ پاکستانی قوم کی بہترین صلاحیتوں کا ذکر کرکے طلبہ کی فکری شعور کا بیدار کیا۔
پرفسر زاہد کمال صدیقی نے بتایا کہ کالج ایک چھوٹا پاکستان ہے جس میں میں ہر صوبے کی نمائندگی موجود ہے اور انہوں نے پروفیسر اسد اسلم خان صاحب کی اس ادارے کو بنانے میں ان کی کوششوں کو سراہا۔ انہوں نے تقریب کے بہترین انتظامات کرنے پر انسٹرکٹر تحسینہ اکرم، عابدہ اصغر اور نورین فاطمہ کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر فیکلٹی ممبران ندیم حکیم انجم اور سعدیہ چیمہ نے یوم آزادی پاکستان پر اپنی لکھی شاعری بھی پیش کیا۔