کراچی (نمائندہ خصوصی) شہرِ قائد کی سڑکوں پر ان دنوں نہ صرف ٹریفک کا شور ہے بلکہ اجرک ڈیزائن کی نئی نمبر پلیٹس کا خوف بھی چھایا ہوا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے نئی نمبر پلیٹس کے اجرا کے بعد پولیس کی جانب سے اچانک کریک ڈاؤن شروع ہوا، بڑی گاڑی ہو یا موٹر سائیکل، نئی پلیٹ لگاؤ یا “کچھ” دو کا معاملہ ہے۔
لیکن معاملہ یہاں تک محدود نہیں رہا، شہر بھر میں سرکاری ویکسینیٹرز کی وہ بائیکس بھی پولیس کی زد میں آ گئیں جو سالوں سے بغیر نمبر پلیٹس استعمال ہو رہی ہیں اور دلچسپ بات یہ کہ یہ تمام بائیکس خود حکومت نے دی تھیں جو حکومت کو عالمی اداروں نے دیں۔
2018 سے لے کر 2025 تک مختلف منصوبوں کے تحت فراہم کی گئی موٹر سائیکلیں ہنڈا 70، دھوم، سفید رنگ کی ہنڈا 125 اور خواتین کی سکوٹیز اب سڑکوں پر مشکوک نظر آنے لگیں کیونکہ ان پر نمبر پلیٹس تو دور بعض کے پاس اتھارٹی لیٹر بھی نہیں۔
کئی ویکسینیٹرز کے پاس ضلعی انتظامیہ کی طرف سے اتھارٹی لیٹرز تو موجود ہیں، مگر ان پر نہ گاڑی کا نمبر، نہ ماڈل، نہ ہی کوئی ایسی تفصیل ہے جو پولیس کو مطمئن کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لیٹر سڑک پر قانونی حیثیت رکھتا ہے؟
حال ہی میں ایک ویکسینیٹر کو مکمل کاغذات نہ ہونے پر پولیس نے تھانے بلا لیا، جہاں ڈی ایچ او آفس کا لیٹر ہونے کے باوجود پولیس کو بات سمجھ نہ آئی جس پر ویکسینیٹر نے اپنے ضلع کے مزید 11 ساتھیوں کو تھانے بلا لیا جن کے پاس موٹر سائیکل اور لیٹر موجود تھے۔
یہ صورتحال صوبائی ای پی آئی حکام کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر پولیس کی پکڑ دھکڑ ایسے ہی جاری رہی تو وہ دن دور نہیں جب ویکسینیٹرز کی بائیکس تھانوں میں لائن لگا کر پارک ہوں گی اور مہم سے زیادہ وقت نمبر پلیٹس کی صفائی میں لگے گا۔
ای پی آئی حکام کو فوری طور پر بائیکس کی رجسٹریشن، اتھارٹی لیٹرز کی اپڈیٹ، اور متعلقہ نمبر پلیٹس کے اجرا کا لائحہ عمل واضح کرنا ہوگا ورنہ ویکسینیشن سے پہلے ویکسینیٹر خود تھانے میں “چیک” ہو چکے ہوں گے۔