ہفتہ, اپریل 19, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کا قومی شناختی کارڈ کو میڈیکل ریکارڈ نمبر قرار دینے کے فیصلے کا خیرمقدم

کراچی: ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ (ہیلتھ ریب) نے قومی شناختی کارڈ نمبر کو ہر شہری کا میڈیکل ریکارڈ نمبر قرار دینے کے فیصلے کو پاکستان میں صحت کے شعبے کے لیے ایک تاریخی سنگ میل قرار دیا ہے۔

ہیلتھ ریب کے چیئرمین اور معروف ماہر ذیابیطس پروفیسر عبدالباسط نے وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال اور چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر کو اس تاریخی فیصلے پر سراہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کے صحت کے نظام کو ڈیجیٹل بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ایک انقلابی قدم ہے جو مریضوں کے ڈیٹا کو منظم، مربوط اور قابل استعمال بنانے میں مدد دے گا۔

پروفیسر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ قومی شناختی کارڈ کو میڈیکل ریکارڈ نمبر بنانے سے ایسے مریضوں کی شناخت ممکن ہو سکے گی جو بیماریوں کا شکار تو ہیں لیکن تشخیص سے محروم ہیں، خاص طور پر ذیابیطس اور بلند فشار خون جیسے خاموش امراض کے مریض جو اپنے امراض سے لاعلم ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے صحت سے متعلق پالیسی سازی کو بھی ڈیٹا کی بنیاد پر موثر اور بامقصد بنایا جا سکے گا۔ ہیلتھ ریب سے وابستہ ماہرین کے مطابق یہ نظام نہ صرف تحقیق اور نگرانی میں مدد دے گا بلکہ مختلف بیماریوں کے رجسٹری نظام کی تشکیل میں بھی کلیدی کردار ادا کرے گا، جس سے قومی سطح پر روک تھام، علاج اور وسائل کی منصفانہ تقسیم میں بہتری آئے گی۔

پروفیسر عبدالباسط نے اس بات پر زور دیا کہ نادرا کے محفوظ اور وسیع ڈیٹا بیس سے منسلک یہ نظام بیماریوں کے رجحانات کی مؤثر نگرانی اور صحت کے نظام کو تیسری سطح کے اسپتالوں سے ہٹا کر بنیادی اور روک تھام پر مبنی نظام کی طرف لے جانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اہم قدم ہر پاکستانی کے طبی ریکارڈ کو ایک مرکزی اور محفوظ ڈیٹا بیس سے جوڑ دے گا، تاکہ ملک کے کسی بھی کونے سے مریض کی معلومات تک رسائی حاصل کی جا سکے اور علاج میں تسلسل برقرار رہے۔

پروفیسر عبدالباسط نے حکومت کی جانب سے ٹیلی میڈیسن کے فروغ اور موبائل ہیلتھ یونٹس کے قیام کے منصوبوں کو بھی سراہا اور کہا کہ یہ صرف ایک ٹیکنالوجیکل بہتری نہیں بلکہ عوام کو مرکزیت دینے والا قدم ہے، جو دیہی اور دور دراز علاقوں کے ان افراد کے لیے امید کی کرن ثابت ہو سکتا ہے جو اب تک رسمی صحت کے نظام سے محروم ہیں۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس ڈیجیٹل ہیلتھ وژن کے تحت مستقبل میں بایومیٹرک رسائی، نان کمیونیکیبل بیماریوں کے لیے طے شدہ اہداف پر مبنی پروگرامز اور قومی سطح پر صحت کی رجسٹریوں کا قیام ممکن ہو سکے گا۔