کراچی : پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ پر تشویش اظہار کیا ہے جس میں پاکستان کو ان ممالک میں سے ایک میں شامل کیا گیا ہے جہاںغیرصحت بخش چکنا ئی کی وجہ سے دل کے امراض سے ہونے والی اموات کا تخمینہ سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان نے اس کے خاتمے کے لیے عالمی ادارہ صحت کی دی گی ہدایات پرمبنی بہترین طرز عمل کی پالیسی نہیں اپنائی ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن سینٹر کےاعزازی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالغفور شورو کے مطابق عوامی آگاہی کے لیے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ چکنائی کے دو اہم ذرائع ہیں۔قدرتی ذرائع (ڈیری مصنوعات اور گائے اور بھیڑوں کے گوشت میں) اور صنعتی طور پر تیار کردہ ذرائع جو کہ جزوی طور پر ہائیڈروجن شامل شدہ تیل ہیں۔
ہائیڈروجن والا تیل ایک قسم کی چکنائی ہے جسے فوڈ مینوفیکچررز کھانے کو زیادہ دیر تک تازہ رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہائیڈرو جنیشن ایک ایسا عمل ہے جہاں مینوفیکچررز ہائیڈروجن کو مائع چربی میں شامل کرتے ہیں تاکہ نباتاتی تیل کو کمرے کے درجہ حرارت پر ٹھوس چربی میں تبدیل کیا جاسکے۔ ہائیڈروجن والے تیل کے متعدد ممکنہ مضر اثرات کسی شخص کی صحت کو منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔ اس سے دل کے دورے، فالج اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ٹرانس فیٹس کا کولیسٹرول کی سطح پر بھی غیر صحت بخش اثر پڑتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے سب سے پہلے 2018 میں صنعتی طور پر پیدا ہونے والی ٹرانس فیٹ کے عالمی خاتمے کا مطالبہ کیا تھا – جس کے خاتمے کا ہدف 2023 کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ گائیڈلائن کے مطابق حکومتوںکو چاہئے کہ سب سے پہلے، صنعتی طور پر تیار کردہ تمام کھانوں میں 2 گرام ٹرانس فیٹ فی 100 گرام فیٹ کی لازمی حد مقررکی جائے۔ دوم، جزوی طور پر ہائیڈروجن وا لے تیل (ٹرانس فیٹ کا ایک بڑا ذریعہ) کی تیاری یاتمام کھانوں میںاس کے استعمال پر پابندی عائدکی جائے ۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستانی عوام کی صحت کے تحفظ کیلئے ڈبلیو ایچ او کی ہدایات کے مطابق ٹرانس فیٹ کے خاتمے کیلئے بہترین طرز عمل کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جائے۔ پی ایم اے لوگوں کو یہ بھی مشورہ دیتا ہے کہ وہ ٹرانس فیٹ فوڈز کا استعمال نہ کریں جس میںتجارتی طورپر بیک کی گئیں اشیا، جیسے کیک،بسکٹ نیز مکھن ، مارجرین، سپریڈ اسکے علاوہ پاپ کارن، فروزن پیزا، رول ، سموسے،، فرائیڈ فوڈ بشمول فرنچ فرائز، ڈونٹس اور تلی ہوئی چکن، کافی کریمر شامل ہیں ۔