کراچی : ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیس ساؤتھ میں انسداد خسرہ وروبیلا مہم کے فنڈز میں لاکھوں کی مبینہ خرد برد کرنے والے اکاؤنٹنٹ حنیف بلوچ نے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سندھ کی اتھارٹی کو چیلنج کر دیاہے اور طلب کرنے کے باوجود ڈی آفس حیدرآباد پیشی کے لئے حاضر نہیں ہوئے۔ امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ ڈی جی آفس پیشی پر حنیف بلوچ پر خرد برد ثابت ہو جائے گی اور ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی لیکن حنیف بلوچ کاروائی سے بچنے کے لئے حیدرآباد ڈی جی آفس پیش ہی نہیں ہوئے نہ ہی کوئی ریکارڈ پیش کیا گیا۔
یاد رہے کہ ڈی جی صحت نےمنگل 22 نومبرکو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ساؤتھ کراچی کو ایک مکتوب ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے ڈی ایچ او کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر کیا تھا کہ ڈی ایچ او کے بجٹ میں خرد برد کی شکایت سامنے آئی ہے جس میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر راج کمار، یو سی ایم او صدر ڈاکٹر عدنان رضوان اور لیڈی ہیلتھ سپروائزر عائشہ کا نام لیا جارہا ہے اور ضلع کے بجٹ میں سنگین خرد برد میں براہ راست اکاؤنٹنٹ حنیف بلوچ کو ملوث قرار دیا جارہا ہے کیونکہ جن سالوں میں خرد برد کی شکایت آئی ہے ان سالوں کےد وران مختلف ڈی ایچ اوز، یو سی ایم اوز اور لیڈی ہیلتھ سپروارئز رہے لیکن اکاؤنٹنٹ ایک ہی حنیف بلوچ رہے ۔
ڈی جی صحت سندھ نے ڈی ایچ اوساؤتھ کو ہدایت کی کہ حنیف بلوچ کو جمعرات 24 نومبر کو صبح دس بجے ڈی آفس حیدرآباد بھیجیں۔ ان کے ہمراہ سال 2019، 2020، 2021 اور 2022 کا ریکارڈ بھی فراہم کریں جس میں خسرہ اور روبیلا مہم کے فنڈز کی تفصیلات، ویکسی نیشن ٹیموں کے ٹرانسپورٹ، نقل و حرکت اور اندرونی آڈٹ کا ریکارڈ شامل ہو۔ یہ وہ فنڈز ہیں جو پراجیکٹ ڈائریکٹر حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام نے براہ راست ڈی ایچ او کو منتقل کیے تھےجس میں خرد برد کی گئی لیکن حنیف بلوچ ڈی آفس نہیں گئے ۔
حنیف بلوچ کے ڈی جی آفس نہ جانے پر ان کے خلاف سخت کاروائی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے لیکن سخت کاروائی کو روکنے کی ذمہ داری ڈی جی آفس حیدرآباد کے سینئر کلرک ایوب کے سپرد کر دی گئی ہے ۔ذرائع کے مطابق سینئر کلرک ایوب کلی طور پر ڈی جی آفس کےمنتظم مانے جاتے ہیں اور تمام انتظامی اورمالی امور انہی کی مرضی سے سرانجام دیئے جاتے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایوب سے ہی ساز باز کرکے حنیف بلوچ نےڈی جی آفس حیدرآباد جانے کے احکامات کی عدولی کی ۔
ذرائع کے مطابق پی ڈی ای پی آئی نے خسرہ روبیلا مہم میں کروڑوں کے فنڈز براہ راست ڈی ایچ او زکو فراہم کیے تھے جو دیگر اخراجات کے ساتھ ان ویکسی نیٹرز کو فراہم کیے جانے تھے جنہوں نے مہم میں حصہ لیا لیکن ضلع جنوبی میں سینکڑوں ویکسی نیٹرز کو ظاہر کرکے فنڈز میں خرد برد کی گئی۔ حنیف بلوچ نے ایسے افراد کے نام تنخواہیں جاری کیں جنہوں نے مہم میں حصہ نہیں لیا پھر وہ پیسے ڈی ایچ او کے ساتھ ساز باز کرکے تقسیم کر لئے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپوٹ کے نام پر بھی خرد برد کی گئی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ حنیف بلوچ اس مافیا کا حصہ ہے جو ایم کیو ایم کے دور میں کراچی کے تمام ٹاوئنز سے صحت کے ٹھیکے لیتی تھی ۔ حنیف بلوچ خود کئی کمپنیوں کے بالواسطہ مالک ہیں جو ان کے دوستوں کے نام پر ہیں ۔ ان کمپنیوں میں سے معروف ترین حق انٹرپرائزر ہے جس اب بھی ضلع جنوبی سمیت سے تمام اضلاع سے ٹھیکے دیئے جاتے ہیںاور یہ کمپنی شارٹ سپلائی کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے ۔ یہ کمپنی حنیف بلوچ کے ساتھی اورمحکمہ صحت کے ملازم کے نام پر ہے ۔ اس وقت اس کمپنی کو ان کے ساتھی ولی محمد پٹیل چلا رہے ہیں۔