حیدرآباد : حیدرآباد میں انسداد پولیو مہم کے دوران سنگین غفلت اور جعلی اندراج کے انکشاف پر محکمہ صحت نے بڑی کارروائی کرتے ہوئے پانچ ویکسی نیٹرز کو ملازمت سے فارغ کر دیا جبکہ متعدد ٹیموں کو تبدیل کر دیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر حیدرآباد زین العابدین نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ یہ کارروائی ایک پولیو متاثرہ بچی کے کیس کی تحقیقات کے نتیجے میں عمل میں لائی گئی۔ ان کے مطابق 18 اگست کو پریٹ آباد کی رہائشی 8 ماہ کی بچی کی طبیعت بگڑنے پر اسے 22 اگست کو اسپتال لایا گیا، جہاں 25 اگست کو لیے گئے نمونے میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ بدقسمتی سے بچی 28 اگست کو انتقال کر گئی۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بچی کے ریکارڈ میں پولیو کے قطرے پلانے کا اندراج تو موجود تھا، تاہم گھر والوں کے مطابق بچی کو قطرے نہیں پلائے گئے تھے۔ اس تضاد نے مہم کے انتظامی عمل میں سنگین خامیوں کو بے نقاب کر دیا۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ ضلع حیدرآباد میں انسداد پولیو مہم کے لیے 5,000 ارکان پر مشتمل عملہ تعینات ہے، جس میں تین، تین ارکان پر مشتمل 70 ٹیموں کی کارکردگی غیر تسلی بخش پائی گئی۔ ان ٹیموں کو فوری طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے، جبکہ جعلی اندراج اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب پانچ ویکسی نیٹرز کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔
زین العابدین کا کہنا تھا کہ پولیو مہم ایک قومی ذمہ داری ہے اور عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کے لیے شفافیت انتہائی ضروری ہے۔ “کسی بھی اہلکار کی لاپرواہی نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرہ بن سکتی ہے،” انہوں نے کہا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پولیو وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے مانیٹرنگ سسٹم کو مزید مؤثر بنایا جا رہا ہے، اور آئندہ مہم میں تمام ٹیموں کی نگرانی سخت کی جائے گی تاکہ کسی بھی قسم کی غفلت یا جعلی اندراج کے امکانات ختم کیے جا سکیں۔
ماہرین صحت کے مطابق حیدرآباد سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں پولیو وائرس کی موجودگی ایک تشویش ناک امر ہے، اور انسداد پولیو مہم میں شفافیت اور سنجیدگی ہی اس خطرے پر قابو پانے کا واحد ذریعہ ہے۔


