کراچی : لیاقت آباد کے مرکزی سرکاری اسپتال میں گزشتہ گیارہ سال سے آرتھوپیڈک آپریشنز بند ہونے کا انکشاف ہوا ہے اور یہ سنسنی خیز انکشاف کسی اور نے نہیں بلکہ اسپتال کے موجودہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر عتیق قریشی نے خود کیا ہے۔ مقامی روزنامہ سے گفتگو میں اپنی کارکردگی کا ذکر کرتے کرتے وہ بے اختیار محکمہ صحت سندھ اور ماضی کی انتظامیہ کی بے حسی اور ناکامی کو بے نقاب کر بیٹھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپتال میں استعمال ہونے والی مشینری خراب پڑی تھی جس کی مرمت حال ہی میں مکمل ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عتیق قریشی نے اعتراف کیا کہ اسپتال میں آرتھوپیڈک یونٹ 16 بستروں پر مشتمل ہے۔ روزانہ ایک درجن سے زائد فریکچر کے مریض آتے ہیں مگر گزشتہ 11 سال سے مشینری خراب تھی اور کوئی آپریشن نہیں ہو رہا تھا۔ یہ وہ اعتراف ہے جس نے سندھ کے صحت کے نظام پر گہرے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ اسپتال میں سی ٹی اسکین مشین موجود نہیں، ایکو کارڈیوگرام کی سہولت نہیں، اور نہ ہی گردے، ای این ٹی، ریڈیولوجی، جنرل سرجن، کارڈیولوجسٹ، یورولوجسٹ یا امراض چشم کے ماہرین موجود ہیں۔ ان تمام کنسلٹنٹس کی اسامیاں بجٹ بک سے اچانک ختم کر دی گئی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر قریشی نے یہ بھی کہا کہ اسپتال میں انتہائی نگہداشت یونٹ کے ٹیکنیشنز اور ای این ٹی ماہرین کی شدید کمی ہے جبکہ دوسری طرف وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تمام شعبوں کی تزئین و آرائش مکمل کر لی گئی ہے اور پیرا میڈیکل اسکول کی عمارت مرمت کے بعد فعال کر دی گئی ہے۔
ماہرین صحت اور شہری حلقے حیران اور پریشان ہیں کہ اتنے طویل عرصے تک نہ صرف مشینری خراب رہی بلکہ متعلقہ حکام اور محکمہ صحت نے اس جانب کوئی سنجیدہ توجہ بھی نہیں دی۔ کروڑوں روپے کا سالانہ بجٹ کہاں گیا؟ عوام کو برسوں تک بنیادی علاج سے محروم رکھنا کیا کھلی بدانتظامی اور مجرمانہ غفلت نہیں؟
یہ سوال اب عام شہریوں کی زبان پر ہے کہ اگر معمولی مرمت سے یہ مشینیں دوبارہ فعال ہو سکتی تھیں تو آخر گیارہ برس تک ان پر خاموشی کیوں چھائی رہی؟ کیا یہ صرف لاپروائی تھی یا اس کے پیچھے مالی بدعنوانی اور ملی بھگت چھپی ہوئی ہے؟
ماہرین اور عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عتیق قریشی نے اپنی موجودہ کارکردگی کو نمایاں کرنے کے لیے جو تفصیلات بیان کیں، وہ درحقیقت محکمہ صحت سندھ کی گزشتہ ایک دہائی کی ناقص کارکردگی، بدانتظامی اور لاپروائی کا کھلا اعتراف بھی ہیں۔ اس بات پر بھی عوامی حلقوں میں بحث جاری ہے کہ کیا ڈاکٹر عتیق قریشی نے یہ تمام باتیں واقعی اصلاح کی نیت سے کیں یا محض اپنی موجودہ کارکردگی کو ابھارنے کے لیے سابقہ انتظامیہ کی ناکامی کو بے نقاب کر دیا؟
ہیلتھ ورکرز، سوشل ایکٹوسٹس اور عوامی نمائندوں نے حکومت سندھ اور محکمہ صحت سے مطالبہ کیا ہے کہ آرتھوپیڈک یونٹ کی 11 سالہ بندش کی مکمل انکوائری کی جائے، اسپتال کو دیے گئے بجٹ کے استعمال کا آڈٹ کیا جائے، وہ افسران جو اس دوران خاموش تماشائی بنے رہے، ان کا احتساب کیا جائے، اسپتال کو فوری طور پر تمام مشینری، ماہرین اور سہولیات فراہم کی جائیں۔