منگل, دسمبر 16, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

جناح اسپتال میں لابنگ گروپ کا نیا شو؛ ایک اور اجلاس، وہی پرانا ایجنڈا، بیرونی افسر سے خوف، اندرونی مفادات کی حفاظت

کراچی : جناح اسپتال کے مخصوص ملازم رہنماؤں نے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی ممکنہ تعیناتی پر ایک اور ”ہنگامی اجلاس“ منعقد کرکے اپنی مسلسل لابنگ اور دباؤ کی پالیسی کو مزید واضح کر دیا ہے۔ یہ اجلاس بظاہر اصولی بحث کے لیے تھا، مگر درحقیقت وہی پرانی کوششوں کا تسلسل نظر آیا جن کا مقصد ادارے میں ایسی مضبوط انتظامی شخصیت کی تعیناتی روکنا ہے جو کئی سالوں سے جاری سستی، گروہ بندی اور بے نظمی کو چیلنج کر سکے۔

اجلاس میں وہی چہرے معمول کے مطابق پیش پیش رہے جنہوں نے پہلے سوئم کے دن اچانک ڈاکٹر سلمان کے نام کی لابنگ کی اور جب حکومت نے تین سینئر پروفیسرز کی سمری تیار کی تو فوراً ”تحفظات“ کا راگ الاپنا شروع کر دیا۔ آج کے اجلاس میں پیش کی گئی قرارداد بھی اسی بیانیے کی نئی شکل ہے، جس کا محور یہی تھا کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر صرف اسی کو بنایا جائے جو اندرونی ملازم ہو۔

مبصرین کے مطابق ”اندرونی امیدوار“ کا مطالبہ اصول نہیں بلکہ وہی پرانا مفاداتی خوف ہے کہ کہیں کوئی مضبوط، سخت گیر، نظم و ضبط پر یقین رکھنے والا افسر آکر برسوں سے جمی ہوئی کام چوری، اختیارات کے غلط استعمال اور غیر رسمی قبضہ گروپوں کی طاقت ختم نہ کر دے۔

اجلاس میں شریک رہنماؤں نے اکیڈمک کونسل کی قرارداد کا حوالہ تو دیا، مگر یہ نہیں بتایا کہ اگر ادارہ واقعی سینئر ترین، شفاف اور مستحق قیادت کا خواہاں ہے تو پھر سوئم کے دن غیر سینیئر نام کے لیے لابنگ کس اصول کے تحت جاری تھی؟ اور آج دوبارہ اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی؟

اسی طرح ”بیرونی فرد“ کے خلاف شدید مزاحمت کی دھمکی بھی کئی سوالات پیدا کرتی ہے کہ کیا یہ مزاحمت ادارے کے مفاد میں ہو گی یا ان مخصوص حلقوں کے مفاد میں جو سخت احتساب اور نظم و ضبط سے خوفزدہ ہیں؟

تنقیدی حلقے کہتے ہیں کہ ٹھیک اسی وقت جب اسپتال کو پرسکون ماحول، تسلسل، اور واضح قیادت کی ضرورت ہے یہ اجلاس دراصل اُس داخلی عدم برداشت کا اظہار ہیں جو ہر اُس افسر کے راستے میں کھڑی ہوتی ہے جو ادارے کو سیاسی اثر و رسوخ اور ملازمین کی من مانیوں سے آزاد کرنا چاہتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلسل اجلاس، قراردادیں اور دباؤ ڈالنے کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مخصوص عناصر کسی بھی ایسے انتظامی سربراہ کے آنے سے خوفزدہ ہیں جو کام چوری، گروپ بندی اور ”پریشر پالیٹکس“ کو جڑ سے ختم کر سکتا ہو۔