اتوار, اکتوبر 5, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

غیر حاضری پر خبر شائع ہونے کے بعد تھارو خان کا ردعمل، سوشل میڈیا پر وضاحتی پوسٹ میں خود کو “نرسز کا خادم” قرار دے دیا

کراچی / نوشہروفیروز : ہیلتھ ٹائمز پر شائع ہونے والی خبر جس میں اسٹاف نرس تھارو خان خاکی کے مبینہ طور پر سرکاری ڈیوٹی سے کئی ماہ تک غیر حاضر رہنے اور گھوسٹ ملازم ہونے کے سرکاری دستاویزی انکشافات سامنے لائے گئے تھے، پر اب متعلقہ فریق کی جانب سے پہلا ردعمل سامنے آ گیا ہے۔

تھارو خان نے اپنی فیس بک پوسٹ کے ذریعے، خبر کے مندرجات کا براہِ راست جواب دیے بغیر، اپنے کام اور نیت کا دفاع کرتے ہوئے لکھا کہ “سچائی کی راہ میں کانٹے ضرور آتے ہیں، مگر قدم کبھی نہیں رُکتے… میں نرسز کے لیے آواز اٹھاتا ہوں، بغیر کسی لالچ کے، اور یہ مشن جاری رہے گا۔”

انہوں نے پوسٹ میں یہ بھی کہا کہ وہ نہ کسی عہدے کے خواہاں ہیں، نہ کسی افسر کے ترجمان، بلکہ صرف نرسنگ برادری کے ساتھ خلوص سے جڑے ایک عام انسان ہیں۔

یاد رہے کہ ہیلتھ ٹائمز کی تحقیق کے مطابق تھارو خان گزشتہ چار ماہ سے ڈیوٹی سے غیر حاضر ہیں جس پر محکمہ صحت سندھ نے انکوائری اور وضاحت طلبی کے نوٹس بھی جاری کیے ہیں۔ نوشہروفیروز میں سول اسپتال میں انکوائری مورخہ 16 اپریل 2025 کو ہوئی، جبکہ کراچی سے محکمہ صحت کی جانب سے 29 مئی کو جاری وارننگ لیٹر میں ان سے وضاحت مانگی گئی کہ وہ بغیر اجازت ڈیوٹی سے کیوں غائب ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : نرسوں کا لیڈر یا گھوسٹ ملازم؟ تھارو خان کی اصل حقیقت بے نقاب، 4 ماہ سے ڈیوٹی سے غائب، کراچی میں نرسوں کی سیاست مصروف

تاہم، ان تمام سرکاری نکات پر تھارو خان نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ ان کی پوسٹ جذباتی اور اخلاقی اپیلوں پر مبنی تھی، جس میں انہوں نے خود کو خدمت گزار، نیک نیت، اور بے غرض کارکن ظاہر کیا، لیکن ڈیوٹی غیر حاضری، سرکاری ضوابط کی خلاف ورزی اور نجی اداروں کی پروموشن جیسے سنگین الزامات پر خاموشی اختیار کی۔

تھارو خان نے بغیر کسی مخصوص میڈیا ادارے یا فرد کا نام لیے، کہا کہ “کچھ عناصر میرے خلاف جھوٹی باتیں اور افواہیں پھیلا رہے ہیں… بدگمانیاں صرف کمزور دلوں کا ہتھیار ہوتی ہیں۔”

اس وضاحتی پوسٹ کے بعد کئی سوالات بدستور قائم ہیں کہ کیا تھارو خان نے محکمہ صحت کو غیر حاضری کی باقاعدہ اطلاع دی تھی؟ کیاا وہ سرکاری قواعد کے مطابق سوشل میڈیا پر سرگرمیوں اور نجی اداروں کی پروموشن کے مجاز تھے؟ کیا محکمہ صحت سندھ کی خاموشی یا تاخیر داخلی ملی بھگت یا اثرورسوخ کا اشارہ ہے؟ سب سے اہم کہ کیا سوشل میڈیا پر سرگرمی، اصل ڈیوٹی کی جگہ لے سکتی ہے؟

یہ معاملہ ایک فرد تک محدود نہیں۔ سندھ بھر کے سرکاری اسپتالوں میں نرسنگ اسٹاف کی کمی، نچلی سطح کی بے ضابطگیاں، اور سیاسی سرپرستی جیسے سنگین مسائل جڑیں پکڑ چکے ہیں۔ اس لیے ایسے معاملات کی نہ صرف شفاف انکوائری ہونی چاہیے بلکہ حکومت کو مثالی کارروائی کے ذریعے ایک مضبوط پیغام دینا ہوگا۔