جمعہ, جولائی 4, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

عالمی ادارہ صحت کے وفد کی پی ایم اینڈ ڈی سی کے صدر سے ملاقات

اسلام آباد، : عالمی ادارہ صحت کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے صدر سے ملاقات کی تاکہ پاکستان میں بنیادی طبی سہولتوں کی بدلتی ضروریات کے مطابق طبی اور عوامی صحت کی تعلیم کو ہم آہنگ کرنے کے لیے تعاون کو مضبوط بنایا جا سکے۔

ملاقات کے دوران بنیادی طبی مراکز اور یونٹس کے قیام اور بہتری، اور طبی و عوامی صحت کے نصاب میں نظرثانی پر تبادلہ خیال ہوا تاکہ ملک کی صحت کی ترجیحات کو بہتر انداز میں پورا کیا جا سکے اور مستقبل کے طبی پیشہ ور افراد کو جامع اور کمیونٹی پر مبنی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے ضروری مہارتوں اور علم سے آراستہ کیا جا سکے۔ وفد نے اس بات پر زور دیا کہ صحت کا ایک ایسا ورک فورس تیار کرنا ضروری ہے جو غیر متعدی بیماریوں، زچہ و بچہ کی صحت، ذہنی صحت، اور ابھرتی ہوئی طبی ہنگامی صورتحال سے مؤثر طور پر نمٹ سکے۔

صدر پی ایم اینڈ ڈی سی نے ڈبلیو ایچ او کے وفد کا خیرمقدم کرتے ہو ئےکہاکہ "ہمارا مشترکہ مقصد طبی تعلیم کی بنیاد کو مضبوط بنا کر ایک ذمہ دار، مساوی اور پائیدار نظام صحت تشکیل دینا ہے۔ ہم اس اہم مقصد میں WHO کی تکنیکی مہارت اور مسلسل تعاون کی قدر کرتے ہیں۔”

وفد میں شامل افراد میں جناب رواغی حامد (علاقائی مشیر)، ماتاریا عواد (ڈائریکٹر)، گیدک فیتھیا گولن (کوآرڈینیٹر)، ڈاکٹر محسن رضا (کنسلٹنٹ ہیلتھ فنانسنگ)، سید شمش الزوہا بابر (یونٹ ہیڈ)، ڈاکٹر نوید اصغر (نیشنل پروفیشنل آفیسر ہیلتھ سسٹمز)، محترمہ طاہرہ علی (کمیونٹی انگیجمنٹ آفیسر) اور ڈاکٹر سمیعہ لطیف (کنسلٹنٹ کمیونیکیبل ڈیزیز کنٹرول) شامل تھے۔

صدر پی ایم اینڈ ڈی سی پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج نے وفد کے مختلف سوالات کے جواب میں بنیادی طبی سہولتوں کے قیام اور مضبوطی سے متعلق کونسل کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی نے تمام الحاق شدہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ یا تو اپنے تدریسی ہسپتالوں میں یا اپنے علاقے میں موجود بنیادی صحت یونٹس (BHUs) اور دیہی صحت مراکز (RHCs) کو استعمال کرتے ہوئے آؤٹ ریچ مراکز قائم کریں۔ اس اقدام کا مقصد طلباء کی عملی تربیت میں اضافہ، کمیونٹی کی صحت میں بہتری، اور عوامی صحت کی آگاہی اور تعلیم کو فروغ دینا ہے۔

ڈاکٹر تاج نے نشاندہی کی کہ پاکستان کے دور دراز اور نواحی علاقوں کے لوگ معمولی طبی مسائل کے علاج کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں، جس سے انہیں مالی اور ذہنی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں بنیادی طبی سہولتیں فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی نے طبی تعلیم کے انڈرگریجویٹ نصاب میں بنیادی طبی سہولتوں کو شامل کرنے کے اقدامات شروع کیے ہیں تاکہ طلباء دوران تعلیم ہی ان سہولتوں کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی گزشتہ ایک سال سے ان مسائل پر خاص توجہ دے رہی ہے اور ملک کے 185 میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں سخت معیارات لاگو کیے جا رہے ہیں تاکہ WHO کے مقرر کردہ ڈاکٹر تا مریض تناسب اور فیکلٹی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

ملاقات کے دوران صدر نے یہ بھی بتایا کہ انڈرگریجویٹ نصاب میں بنیادی صحت کی سہولتوں کے تصورات شامل کیے جا چکے ہیں اور اب پبلک ہیلتھ اور فیملی میڈیسن کو پوسٹ گریجویٹ سطح پر شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

انہوں نے وفد کو آگاہ کیا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی کا اکیڈمک بورڈ، جو ماہرین اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل ہے، عوام کو صحت کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے نئے اقدامات پر کام کر رہا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج نے مزید بتایا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی نے پہلی بار میڈیکل اور الحاق شدہ صحت سائنسز کی تعلیم کے لیے 1700 گھنٹوں پر مشتمل نصاب اور فیملی میڈیسن کے لیے 75 لازمی گھنٹے متعارف کروائے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی نے 123 الحاق شدہ کالجوں کو فیملی ہیلتھ کیئر اور پرائمری ہیلتھ کیئر ماڈیولز شامل کرنے کے لیے خطوط ارسال کیے تھے، جن میں سے 44 کالجوں نے مثبت جواب دیا ہے۔

انہوں نے یہ بھی اجاگر کیا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی آئندہ نصاب میں بنیادی طبی سہولتوں میں قیادت کی مہارت، صحت کے مختلف شعبوں کے درمیان بہتر انضمام، اور طبی اخلاقیات و ابلاغی صلاحیتوں پر مزید توجہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

بات چیت کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر رضوان تاج نے وفد کو بتایا کہ پی ایم اینڈ ڈی سی نے گزشتہ دو برسوں میں کئی اہم اہداف حاصل کیے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ کونسل جلد ہی جاری پیشہ ورانہ ترقی (CPD) اور جاری طبی تعلیم (CME) کے پروگرامز کا آغاز کرے گی۔ ان پروگرامز کی شمولیت کے بعد پی ایم اینڈ ڈی سی کی ری ویلیڈیشن کا عمل ان سے منسلک ہو جائے گا تاکہ ڈاکٹرز اپنی صلاحیتوں اور علم کو مسلسل تازہ کرتے رہیں اور عصری طبی معیارات پر پورا اتریں