محکمہ صحت سندھ کے 20 گریڈ کے سینئر آفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق تنیو سے دس لاکھ روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے۔ ایک جعلساز نے خود کو فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی کا زونل آفیسر ظاہر کرکے ڈاکٹر سے دس لاکھ روپے ہتھیا لئے۔ معاملے پر ایف آئی اے سائبر کرائم کراچی نے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ہیلتھ ٹائمز کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق 10 اکتوبر کو محکمہ صحت سندھ کے 20 گریڈ کے سینئر آفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق تنیو نے ایف آئی اے سائبر کرائم میں درخواست جمع کروائی جس کے متن کے مطابق 13 جولائی کو ان کو بطور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ قطر اسپتال عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
30 ستمبر کو نئے ایم ایس ڈاکٹر زاہد علی زیدی نے واٹس ایپ میسیج کیا کہ ایف آئی اے زونل آفس میں تعینات ایک اعلیٰ افسر ان سے بات کرنا چاہتا ہے اور وہ ان کو کال کرلیں۔ ایم ایس نے اس افسر کا موبائل نمبر بھی دیا مگر وہ اس اعلیٰ افسر کا اصل موبائل نمبر نہیں تھا بلکہ ان کا نام استعمال کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالرزاق تنیو کے پاس پھر اس نمبر سے کال آئی کہ میں افسر بات کررہا ہوں اور ان کے علم میں ہے کہ ان کی کتنی کتنی بینک ٹرانزیکشن ہوتی رہی ہیں اور وہ ان کو گرفتار بھی کرسکتے ہیں۔ اس دوران جعلساز نے انہیں آفر بھی کی کہ وہ ان کو واپس قطر اسپتال میں ایم ایس تعینات کروا سکتے ہیں۔
اس جعلساز نے سوال کیا کہ وہ اس “فیور” کے کتنے پیسے دے سکتے ہیں تو ڈاکٹر عبدالرزاق تنیو نے 2 لاکھ کا کہا جس پر وہ جعلی افسر ناراض ہوگیا اور ایک یبنک اکاؤنٹ نمبر دیا کہ اس میں 10 لاکھ روپے جمع کروا دو جس پر ڈاکٹر ایم سی بی کینٹ برانچ گیا جہاں اس افسر نے بینک منیجر کو لینڈ لائن پر فون کرکے ہدایات دیں جس کے بعد مدعی نے 10 لاکھ کیش منیجر کو دیئے جو دیئے گئے اکاؤنٹ میں جمع کردیئے گئے۔
مذکورہ اکاؤنٹ عمران عباس نامی شخص کے نام تھا اور رقم اس اکاؤنٹ میں جمع ہوتے ہی تھوڑی دیر میں نکال لی گئی۔ مذکورہ فراڈ کی تحقیقات سائبر سرکل کراچی کے سربراہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد اقبال کی سربراہی میں سب انسپکٹر فرحان کررہے ہیں۔
اس معاملے کے بعد 4 اکتوبر کو ایف آئی اے سائبر کرائم زونل آفس سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا کہ کوئی شخص اپنے آپ کو زون کا اعلیٰٓ افسر ظاہر کرکے لوگوں کو بلیک میل کررہا ہے اور لاکھوں روپے وصول کررہا ہے۔
ڈاکٹر عبدالرزاق تنیو نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے ہیلتھ ٹائمز کو بتایا کہ ان کے ساتھ فراڈ ہوا ہے۔ رقم کی ادائیگی ہونے کے بعد وہ کیک لے کر زونل آفس مذکورہ افسر سے ملنے گئے مگر اُنہوں نے ملنے سے انکار کردیا۔
اس حوالے سے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم کا کہنا تھا کہ تحقیقات جاری ہیں۔ دونوں بینکوں جہاں پیسے جمع کروائے گئے اور راولپنڈی جہاں سے پیسے نکلوائے گئے اس کی ویڈیو کلپس تحویل میں آگئی ہیں۔ جلد یہ معاملہ ہونے کی توقع ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ محکمہ صحت میں سفارش اور پیسے لے کر تعیناتیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پیسے لئے بغیر میرٹ پر تعیناتیاں بہت کم ہوتی ہیں اسی لئے سینئر افسر نے پیسے دیئے۔ محکمہ صحت میں کرپشن کی وجہ بھی یہی ہے کہ افسر پیسے دے کر آتے ہیں پھر سرکاری خزانے کو لوٹتے ہیں اور مریضوں کو سہولیات نہیں دیتے۔