شیخوپورہ : پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی، محکمہ صحت اور پولیس کی مشترکہ کارروائی کے دوران شیخوپورہ کے ایک نجی اسپتال میں انسانی اعضا کی غیر قانونی خرید و فروخت میں ملوث ایک بڑے گروہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کارروائی اس وقت عمل میں لائی گئی جب اسپتال کے آپریشن تھیٹر میں ایک افریقی خاتون کو غیر قانونی طور پر گردہ ٹرانسپلانٹ کیا جا رہا تھا، اور محنت کش محسن کا گردہ نکالا جا چکا تھا۔
حکام کے مطابق، افریقی خاتون نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس گروہ سے رابطہ کیا اور گردہ حاصل کرنے کے لیے 70 لاکھ روپے ادا کیے۔ خاتون اپنے بیٹے کے ہمراہ پاکستان پہنچی، مگر ہیلتھ اتھارٹی اور پولیس نے بروقت کارروائی کر کے نہ صرف ایک اور غیر قانونی ٹرانسپلانٹ کو روکا، بلکہ ڈاکٹر وقاص مصطفیٰ سمیت چھ افراد کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار افراد میں خواتین، ٹیکنیشنز اور ایجنٹس شامل ہیں۔
دوسری جانب گردہ دینے والے محنت کش محسن کو اس مکروہ دھندے میں صرف ایک جسمانی آلہ سمجھا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اسے کسی قسم کا مالی معاوضہ نہیں دیا گیا اور اس کی حالت اس وقت تشویشناک ہے۔ محسن اور افریقی خاتون دونوں کو ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ خاتون کو مزید علاج کے لیے لاہور منتقل کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ روز یہ گروہ پکڑا گیا اور آج کراچی میں سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) سے تعلق رکھنے والی ایک ڈاکٹر نے اپنے جواں سال بیٹے کے گردے عطیہ کر کے دو مریضوں کو نئی زندگی دی۔ وہ گردے مکمل طور پر مفت اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت دیے گئے۔
اس کے برعکس شیخوپورہ میں سامنے آنے والا یہ واقعہ انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہے، جہاں ایک طرف مزدور کو دھوکے سے استعمال کیا گیا اور دوسری جانب افریقی خاتون سے بھاری رقم وصول کر کے غیر قانونی پیوندکاری کی جا رہی تھی۔
یہ واقعہ ملک میں پہلے سے موجود غیر قانونی ٹرانسپلانٹ مافیا کی سنگینی کی یاد دہانی ہے۔ یاد رہے کہ 2023 میں لاہور میں پولیس نے ڈاکٹر فواد ممتاز کو گرفتار کیا تھا، جس نے اعتراف کیا تھا کہ وہ 300 سے زائد افراد کے گردے غیر قانونی طور پر نکال کر فروخت کر چکا ہے۔
پنجاب ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹیشن اتھارٹی کی یہ کارروائی بلاشبہ قابلِ تحسین ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسے گروہ بار بار نئے شہروں میں کیسے جڑیں پکڑ لیتے ہیں؟ اسپتالوں کی رجسٹریشن، نگرانی اور نگرانی کے نظام میں کہاں خامیاں ہیں؟ اور ریاستی ادارے کب تک انسانی زندگی کو بچانے والے عمل کو کاروبار سے الگ کرنے میں کامیاب ہوں گے؟