شیخوپورہ : یونین کونسل S-99، کرپال سنگھ، گاؤں دھاویاں، تحصیل مانانوالہ، ضلع شیخوپورہ میں ایک افسوسناک اور دلخراش واقعہ پیش آیا جہاں ویکسینیٹر حافظ محمد طارق دورانِ ڈیوٹی مسجد میں مائیک سے کرنٹ لگنے کے باعث جاں بحق ہو گئے۔
واقعہ کے مطابق حافظ محمد طارق، جو کہ اربن نارانگ M-6 سے بطور ویکسینیٹر تعینات تھے، معمول کے مطابق بچوں کے حفاظتی ٹیکوں سے متعلق آگاہی کا اعلان کرنے مسجد پہنچے تھے۔ اعلان کے دوران جیسے ہی انہوں نے مسجد کے سپیکر کا مائیک پکڑا تو اس میں کرنٹ آ گیا جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی زمین پر گر پڑا۔ عینی شاہدین کے مطابق انہیں فوری طور پر قریبی طبی مرکز منتقل کیا گیا، تاہم وہ جانبر نہ ہو سکے۔
یوسی ایم او مانانوالہ انور نے اس واقعے کی اطلاع بذریعہ فون ڈپٹی کمشنر آفس شیخوپورہ کو دی تاہم واقعہ کے کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود نہ تو ڈسٹرکٹ ہیلتھ انتظامیہ شیخوپورہ کی جانب سے باضابطہ بیان سامنے آیا، نہ ہی محکمہ صحت پنجاب کی طرف سے کوئی عملی ردعمل دیکھنے میں آیا۔
واقعے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب ای پی آئی ویکسینیٹرز ویلفیئر فیڈریشن نے واقعے کو “دورانِ ڈیوٹی شہادت” قرار دیتے ہوئے درج مطالبہ کیا کہ مرحوم حافظ محمد طارق کو سرکاری سطح پر شہید کا درجہ دیا جائے، ان کے اہل خانہ کو شہداء پیکج کے تحت مکمل مالی امداد دی جائے، ان کی خدمات کو ضلعی اور صوبائی سطح پر باضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے اور تمام فیلڈ ویکسینیٹرز کے لیے حفاظتی تربیت اور الیکٹریکل سیفٹی کٹس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک المناک حادثہ ہے بلکہ محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ فیلڈ اسٹاف جو کہ انتہائی حساس حالات میں بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے جان جوکھوں میں ڈال کر کام کر رہا ہے، اسے نہ تو بنیادی حفاظتی تربیت دی جاتی ہے، نہ ہی حفاظتی آلات فراہم کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں بھی فیلڈ اسٹاف کی دوران ڈیوٹی ہلاکتوں کے واقعات رپورٹ ہوئے لیکن ہر بار حکومتی وعدے وقتی تسلیوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
حافظ محمد طارق کی ناگہانی موت پر EPI کمیونٹی، محکمہ صحت کے ساتھی ویکسینیٹرز، سپروائزرز اور دیگر ہیلتھ ورکرز گہرے صدمے میں ہیں۔ سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے، جہاں ہر کوئی اس واقعے کو افسوسناک ہی نہیں بلکہ قابلِ احتساب غفلت قرار دے رہا ہے۔
مرحوم کے اہلِ خانہ اور ساتھی ویکسینیٹرز نے حکومتِ پنجاب، محکمہ صحت، اور اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ حافظ طارق کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے خاندان کی فوری مالی معاونت کی جائے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع حفاظتی پالیسی مرتب کی جائے۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ “کیا وہ لوگ جو قوم کے بچوں کو بیماریوں سے بچاتے ہیں، خود کسی تحفظ کے مستحق نہیں؟” حافظ محمد طارق چلے گئے، لیکن ان کی قربانی ایک پیغام چھوڑ گئی “فرض کی راہ میں جان دینے والوں کو خاموش مت ہونے دیں۔ انہیں یاد رکھیں، ان کی آواز بنیں”