لاہور (خصوصی رپورٹ) دو سال قبل 17 جولائی 2022 کو سروسز ہسپتال لاہور کے نرسنگ ہاسٹل میں 33 سالہ نرس سونیا کی پراسرار ہلاکت نے پورے شعبہ صحت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آج دو سال گزرنے کے باوجود نہ تو اصل حقائق سامنے آئے، نہ ہی کسی ذمہ دار کا تعین ہو سکا۔ متوفیہ کے لواحقین تاحال انصاف کے منتظر ہیں، جبکہ انکوائری کمیٹیوں اور پولیس تحقیقات کا دائرہ وہیں کا وہیں گھوم رہا ہے۔
سونیا، جو نیورولوجی وارڈ میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھی، اپنے ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی۔ ابتدائی تحقیقات میں کسی قسم کی مزاحمت یا خودکشی کے شواہد واضح نہ تھے، جس نے واقعے کو اور بھی پراسرار بنا دیا۔ اس کی روم میٹ کے مطابق، وہ نائٹ ڈیوٹی سے واپس آ کر کمرے میں داخل ہوئی تو سونیا کی لاش بیڈ پر موجود تھی۔
پولیس نے لاش کو تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوایا، اور فرانزک ٹیموں نے کمرے سے تمام شواہد اکٹھے کیے، لیکن حیرت انگیز طور پر اب تک کسی قسم کی ایف آئی آر میں واضح ملزم کا نام سامنے نہیں آیا۔ ایس پی ماڈل ٹاؤن وقار کھرل نے اس وقت ورثاء سے رابطہ اور قانونی کارروائی کی یقین دہانی کروائی تھی، لیکن اب تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔
دوسری جانب، ایم ایس سروسز ہسپتال ڈاکٹر عامر مفتی نے واقعے پر انکوائری کمیٹی تو تشکیل دی، مگر اس کی رپورٹ نہ تو پبلک کی گئی، نہ ہی ہسپتال کی سطح پر کسی قسم کی محکمانہ کارروائی ہوئی۔
ذرائع کے مطابق نرس سونیا ایک فرض شناس اور ذمہ دار نرس تھی۔ اس کے ساتھیوں نے اس پر کسی قسم کے ذہنی دباؤ یا دشمنی کی اطلاعات کو مسترد کیا ہے۔ اس بات نے واقعے کو مزید الجھا دیا ہے کہ اگر یہ خودکشی نہیں تھی، تو کیا یہ منظم قتل تھا؟ یا پھر کسی اندرونی سازش کا نتیجہ؟ ان سوالات کے جوابات آج بھی لاپتہ ہیں۔
متوفیہ کے خاندان نے حکومت پنجاب اور محکمہ صحت سے متعدد بار انصاف کی اپیل کی، مگر تاحال نہ کوئی سرکاری سطح کی یقین دہانی ملی، نہ ہی کیس میں کوئی پیشرفت۔ سونیا کے بھائی کا کہنا ہے کہ ہماری بہن کو انصاف نہیں ملا، شاید وہ کسی طاقتور کی غلطی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ مگر ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک ہلاکت کا معاملہ ہے بلکہ پورے نظامِ صحت کی سیکیورٹی، اخلاقی فضا اور خواتین کے تحفظ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ نرسنگ ہاسٹلز کی سیکورٹی، نگرانی، اور داخلی نظام پر دوبارہ نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔