اتوار, اکتوبر 5, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

پاکستان میں طبی تحقیق کا پہلا شعبہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزمیں قائم کیا جائے گا

یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزکے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم نے کہا ہے کہ یوایچ ایس میں ملک کا پہلا ڈیپارٹمنٹ آف کلینیکل ریسرچ قائم کیا جائیگا۔ مئی میں ہیلتھ پروفیشنلز کیلئے چھ ماہ کا سرٹیفکیٹ ان کلینیکل ریسرچ کورس شروع کررہے ہیں۔ وہ ہفتے کے روز یو ایچ ایس میں منعقدہ تین روزہ بین الاقوامی کلینیکل ٹرائلز کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔

کانفرنس کا انعقاد یونیورسٹی آف گریناڈا (غرناطہ)سپین،ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد، پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن اور یونیورسٹی آف چائلڈ ہیلتھ لاہور کے اشتراک سے کیا جارہا ہے۔ اس میں سپین، سری لنکا اور پاکستان سے نامور محققین شرکت کررہے ہیں۔

پروفیسر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ ریسرچ کا فائدہ لوگوں کو نہ پہنچ سکے تو وہ بیکار ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کلینیکل ریسرچ کو فروغ دینے کا سہرا سپریم کورٹ کو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے میری بنائی مصنوعی انسانی جلد کی کمرشلائزیشن نہ ہو نے پر 2017ء میں نوٹس لیا۔عدالت عظمٰی کی مداخلت پر پہلی مرتبہ بائیو سیفٹی رولز بنے۔

پروفیسر جاوید اکرم نے مزید کہا کہ بھارت میں بائیو ٹیکنالوجی کے 370 پلانٹ جبکہ پاکستان میں ایک بھی نہیں ہے۔ وائس چانسلر یو ایچ ایس کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائیٹس بی اور سی کے علاج کیلئے سستے انٹرفیرون انجیکشن بنانے پر انھیں نیب اور ایف آئی اے کی پیشیاں بھگتنی پڑیں تاہم بعد ازاں انہی اداروں نے ان کی کوششوں کو سراہا۔

پروفیسر جاوید اکرم نے ملک میں اچھی میڈیکل پبلیکیشنز کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا کا تیسرا بڑا ملک بننے جارہے ہیں اور ہمارے صرف تین امپیکٹ فیکٹر میڈیکل جرنلز ہیں۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے سی ای او عاصم رؤف نے کہا کہ ملک میں کلینیکل ریسرچ کے سٹینڈرڈز تشکیل دیے جاچکے ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ ڈریپ کے نظام کو ای گورننس کے ذریعے جدید خطوط پر استوار کیا گیا ہے۔

ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میجر جنرل ریٹائرڈ پروفیسر عامر اکرام نے اپنے آن لائن خطاب میں کہا کہ ملک میں کلینیکل ٹرائلز کی بنیاد رکھی جاچکی اب اس پر عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ میڈیکل جرنلزم اور ریسرچ رائیٹنگ بہت اہم شعبے ہیں جن میں یو ایچ ایس کام کررہی ہے اور اس کا کردار دوسرے اداروں اور یونیورسٹیوں کیلئے مثال ہے۔

پروفیسر عامر اکرام نے کہا کہ پروفیسر جاوید اکرم کی کوششوں سے ملک میں سٹیم سیل تھراپی کے حوالے سے جامع پالیسی بننے جارہی ہے۔ اس موقع پر انھوں نے بتایا کہ چینی ماہرین کی زیر نگرانی کین سائنو ویکسین کی پاکستان میں تیاری اور پیکجنگ کی جارہی ہے اور اب تک پاک ویک کی بیس ملین خوراکیں تیار کی جاچکی ہیں۔

تقریب سے کانفرنس سیکرٹری ڈاکٹر شہنور اظہر نے بھی خطاب کیا۔ یونیورسٹی آف گریناڈا سپین کے پروفیسر خالد سعید خان نے کہا کہ کلینیکل ٹرائلز میں آگے جانا ہے تو اس کی شفافیت اور اخلاقی اقدار پر سمجھوتا نہ کریں۔ کانفرنس میں سری لنکن ماہرین نے ڈینگی وائرس فیز تھری ٹرائل کے حوالے سے بریفننگ دی۔

ماہرین نے اپنی پریزنٹیشنز میں کہا کہ ریسرچ کو جب تک بزنس کی طرح نہیں لیں گے یہ ترقی نہیں کرسکتی۔ کورونا کے دوران ملک میں ویکسین ٹرائلز کیے گئے جن کی وجہ سے ریسرچرز اور عام لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا۔ تاہم کلینیکل ریسرچ کے حوالے سے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ پاکستان فارماسیوٹیکل مارکیٹ 3.2 بلین امریکی ڈالرز کی ہے جو 12 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ کلینکل ٹرائلز اس وقت دنیا میں 40 ارب ڈالر کی انڈسٹری بن چکے ہیں۔ ایران میں کورونا سے قبل کلینیکل ٹرائلز میں اضافہ ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں 2015ء میں کلینیکل ٹرائلز پر سے ہر قسم کا ٹیکس ختم کردیا گیا۔

کانفرنس کے دوران بتایا گیا کہ ایشیا میں کلینیکل ٹرائلز پر فی مریض خرچ ترقی یافتہ ممالک سے نصف ہے۔ 2010ء سے اب تک پاکستان کے 155 کلینیکل ٹرائلز بین الاقوامی سائیٹ پر رجسٹرڈ ہیں تاہم ڈریپ کے پاس رجسٹرڈ ٹرائلز کی تعداد 38 اور رجسٹرڈ سائٹس کی تعداد 85 ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں اس عرصے میں رجسٹرڈ کلینیکل ٹرائلز کی تعداد 700 سے زیادہ ہے۔ ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان میں کلینیکل ٹرائل میں فی مریض خرچہ 200 ڈالر ہے جو حیران کن ہے۔ امریکہ میں یہ خرچ تقریباً 1400 ڈالر ہے۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔