کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام اسلام میں دماغی موت اور اعضاء کی پیوند کاری کے شرعی اور اخلاقی پہلو پر آگاہی پروگرام میں مختلف مکاتب فکر کے علماء اور طبی ماہرین نے مشترکہ اعلان پر دستخط کیے ہیں جس میں مردہ افراد سے اعضا کا عطیہ خصوصا دماغی موت کے بعد دوسرے انسانوں کی جان بچانے کے لیے یا زندگی بہتر بنانے کے لیے اعضاکے عطیے کی اسلامی شریعت میں اجازت ہے اسلامی تعلیمات کے مطابق اعضاء کےعطیے کودینے والے کی جانب سے صدقہ جاریہ شمار کیا جائے گا
اعلان کے مطابق مردہ افراد کے اعضاء کا عطیہ رضامندی اور اخلاقی اصولوں کی پابندی کے ساتھ کیا جائے علماء نے مسلمانوں میں بالعموم اعضا کے عطیے کی اجازت اور فضیلت کے بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت پر بھی اتفاق کیا مذہبی علماء اور طبی ماہرین نے صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں اور پالیسی سازوں پر زور دیا ہے کہ اعضاء کے عطیے کی حمایت کرنے والے واضح رہنما اصول وضع کیے جائیں اور مذہبی و اخلاقی خدشات کا احترام کرتے ہوئے فریم ورک بنائے جائیں۔آ
گاہی سیمینار میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ علامہ محمد راغب حسین نعیمی, کونسل کے سابق چیئرمین علامہ محمد خان شیرانی, مفتی محمد رمضان سیالوی, ڈاکٹر مفتی محمد مظہر فرید شاہ ,علامہ شہنشاہ حسین نقوی, پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شہتاز, پروفیسر ڈاکٹر عاصم احمد, ڈاکٹر شہزاد انور, ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی ڈاکٹر راشد بن حامد ڈاؤ اورگن ڈونیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹرتوقیر عباس نے بھی خطاب کیا.
اس موقع پر ڈاؤ یونیورسٹی کے سائنٹیفک ایڈوائزر ڈاکٹر سہیل راؤ ،ہارٹ ٹرانسپلانٹ کے ماہر پروفیسر محمد منصورمحی الدین ، ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نازلی حسین ،پروفیسر جہاں آرا حسن ،رجسٹرار اشعرآفاق اور دیگر فیکلٹی اور طلبہ کی بڑی تعداد بھی موجود تھی ۔سیمینار سے خیر مقدمی خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ اسلام نے انسانی جان کی حرمت کو بہت اہمیت دی ہے اس لیے انسانی اعضاء کی پیوند کاری نہ صرف ایک طبی عمل ہے بلکہ خدمت انسانی کا عظیم فریضہ بھی ہے انہوں نے سیمینار کی اہمیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اعضا کی پیوند کاری جہاں طبی لحاظ سے ضروری ہے وہیں مذہبی پہلو کے حوالے سے علماء کی رائے بھی ضروری ہے
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ مفتی راغب حسین نعیمی نے کہا کہ مصنوعی تنفس یا وینٹیلیٹر پر موجود انسان کی دماغی موت کا اعلان ڈاکٹرز کی جانب سے مردہ قرار دیے جانے کے بعد کیا جائے گا اس کا لائف سپورٹ ہٹانا جائز ہے اس کے بعد عطیہ وصیت اور ورثا کی اجازت سے ہو سکے گا انہوں نے کہا کہ دماغی موت اور عمومی موت کے فرق کے لیے اور عرف اور اصطلاح کے پیش نظر رہنا ضروری ہے انہوں نے کہا کہ دماغی موت کے شکار انسان کو وینٹیلیٹر سے ہٹانا اس لیے بھی اہم ہے اس کے نتیجے میں خالی ہو جانے والا وینٹیلیٹر اس شخص کے کام آسکے گا جس کی زندگی بچنے کے امکانات زیادہ ہیں
انہوں نے کہا کہ علماء اور طبی ماہرین پر مشتمل اعضاء عطیہ رجسٹری بھی قائم کی جا سکتی ہے علامہ محمد خان شیرانی نے کہا کہ اسلام میں اعضا عطیہ کرنے کی اجازت ہے مگر احتیاط کے ساتھ انہوں نے کہا کہ یہ نہایت سنجیدگی کا متقاضی مسئلہ ہے فی زمانہ سچائی دیانت داری اور فرائض کی بجاآوری میں انصاف پسندی معدوم ہو چکے ہیں اس لیے بہت احتیاط کے ساتھ اعضاء کی پیوند کاری کا فیصلہ کیا جانا چاہیے
علامہ شہنشاہ حسین نقوی نے نے خطاب میں کہا کہ انسانی جان کی اسلام میں بہت اہمیت ہے اس لیے زندگی بچانے کے لیے انسانی اعضاء کے عطیہ کی اجازت ہے اس سے عطیہ دینے والے شخص کو کوئی ضرر نہیں پہنچنا چاہیے انہوں نے کہا کہ انسانی اعضاء کی منتقلی کے ساتھ اب حیوانوں کے اعضا بھی انسانوں کو لگائے جا رہے ہیں جیسا کہ حال ہی میں ایک نجس جانور کے دل کی انسان کو منتقلی ہوئی تو حیوانی اعضا کی انسانوں کو منتقلی جائز ہے اور اس کے لیے انسانی جان بچانا زیادہ افضل ہے نہ کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ جانور حلال ہے یا حرام
مفتی رمضان سیالوی نے کہا کہ معروف اصول ہے کہ شدید نقصان کو کم نقصان سے روکا جائے اور اور دو نقصان دہ اشیاء میں سےکم نقصان پر اکتفا کیا جائے انہوں نے کہا کہ میت کا احترام مجروح نہ ہو تو اس کے اعضاء وصیت اور خاندان کی مرضی کے مطابق کسی بھی شخص کو منتقل کیے جا سکتے ہیں مفتی مظہر فرید نے کہا کہ انسانی تذلیل نہ ہو تو اعضا پیوند کاری کے لیے عطیہ کیے جا سکتے ہیں اصل اہمیت تکریم اعضاء اور نیت خالص ہونے کی ہے
ڈاکٹر نور احمد شہتاز نے کہا کہ تشریح البدن کے لیے اگر مصنوعی اعضا بنا لیے گئے ہیں تو کسی مرد ہ شخص پر تجربات سے اجتناب کیا جائے کیونکہ اعضا کی تکریم ضروری ہے تقریب کے آخر میں علماء کرام ڈاکٹر راشد بن حامد نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال 50 ہزار انسانی جانیں بچانے کے لیے اعضا کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اعضا کے عطیات کےفروغ کے لیے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے تقریب کے آخر میں وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے علمائےکرام کو ڈاؤ یونیورسٹی کی طرف سے شیلڈز تقسیم کیں۔