پیر, جون 23, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

پشاور کے بڑے اسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین ناپید

پشاور (رپورٹ : صابر شاہ ہوتی) کتے کے کاٹنے کے واقعات میں مسلسل اضافے کے باوجود خیبرپختونخوا کے بڑے ہسپتالوں میں اس بیماری کے ویکسین دستیاب نہیں ہے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال پشاور کے سب سے بڑے اسپتالوں یعنی لیڈی ریڈنگ اسپتال، خیبر ٹیچنگ اسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کتے کے کاٹنے کے اوسطاً 200 سے زیادہ کیسز ماہانہ رپورٹ ہوتے ہیں تمام 2022 میں لیڈی ریڈنگ اسپتال میں کتے کے کاٹنے کے تقریباً 3,320 واقعات رپورٹ ہوئے۔

خیبر ٹیچنگ اسپتال میں 5,400 کی اطلاع ملی اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں 2,930 کیس رپورٹ ہوئے تاہم شہر کے بڑے اسپتالوں میں ریبیز کی ویکسین کے حصول کے لیے صوبے بھر سے مریضوں آتے ہیں جو اکثر اینٹی ریبیز انجیکشن نہ ہونے کی وجہ سے واپس چلے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے ایل آر ایچ کے ترجمان نے بتایا کہ جب کہ ایل آر ایچ میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب تھی، انہوں نے مریضوں کو صرف 1 خوراک دی تھی جبکہ اس کے پانچ انجکشن ہوتے ہیں ایل آر ایچ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں احساس ہے کہ علاج طویل ہے اور مریضوں کو علاج کے دوران شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن شکر ہے کہ ابھی تک ان کا کوئی بھی مریض کتے کے کاٹنے سے نہیں مرا

دوسری جانب صوبائی محکمہ صحت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے اسپتالوں میں ریبیز سے مریضوں کے مرنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ محکمہ صحت اس زمرے حصوصی توجہ دے رہی ہےصوبائی محکمہ لائیو سٹاک کے ڈائریکٹر سید معصوم علی شاہ سے جب خیبرپختونخوا میں اینٹی ریبیز ویکسین کی کمی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کتے کے کاٹنے کے لیے محکمہ کے حل کے لیے ویکسین پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ہم آوارہ کتوں کی نس بندی کی مہم کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جو کتوں کے کاٹنے کے پھیلاؤ کو روکے گی،

2019 میں اسی طرح کی مہم کے نتیجے میں پشاور میں 2,100 آوارہ کتوں کی نس بندی کی گئی تھی اور اب یہ مہم پشاور، مردان، سوات، ایبٹ آباد، کوہاٹ اور بنوں میں دوبارہ شروع ہو گی جہاں ویٹرنری ڈاکٹر آوارہ کتوں کی جراثیم کشی کریں گے صوبائی حکومت نے اس سلسلے میں 47 ملین روپے جاری کیے ہیں اگر ہماری مہم کامیاب ہو جاتی ہے تو صوبے کے عوام کو کتے کے کاٹنے سے مزید تکلیف نہیں اٹھانی پڑے گی اور نہ ہی مہنگی ویکسین کی درآمد سے سرکاری خزانے پر بوجھ پڑے گا