کراچی : ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ نے مردہ خاتون کو تحقیقاتی کمیٹی میں شامل کرکے انوکھا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے ۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیس ضلع جنوبی کراچی میںانسداد خسرہ و روبیلا مہم کے فنڈز میں کروڑوں کی سنگین خرد برد کا ذمہ دار اب اسی مردہ خاتون کو قرار دے کر تحقیقات مکمل ، کیس ختم اور فائل بند کر نے کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے ۔ یہ منصوبہ بنانے والے ڈی جی ہیلتھ آفیس کے سینئر کلرک ایوب ہیں جنہوں نے رشوت کے عوض دیگر ملوث افسران و عملے کو کلین چٹ دینے کی حامی بھر لی ہے ۔
یہ مردہ خاتون لیڈی سپروائزر عائشہ ہیں جو انسداد خسرہ وروبیلا مہم کے دوسرے روز انتقال کر گئی تھیں لیکن انہیں جان بوجھ کر انکوائری کا حصہ بنایا گیا تاکہ سارا الزام ان پر لگا کر افسران بالخصوص اکاؤنٹنٹ و ٹھیکیدار حنیف بلوچ کو بری الذمہ قرار دیا جائے ۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ خاتون کی وفات کے بعد ان کے پراویڈنٹ فنڈز اورپینشن کے تمام کاغذات حنیف بلوچ نے روک رکھے ہیں اور ان کے اہل خانہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔لیڈی سپروائزر عائشہ کے اہل خانہ نے ہیلتھ ٹائمز کو بتایا کہ مسلسل کئی چکر لگانے کے باوجود حنیف صاحب ان سے تعاون نہیں کر رکھے جبکہ انہیں ڈی ایچ او صاحب سے بھی ملنے نہیں دے رہے ۔
ایک مردہ خاتون کو تحقیقات کا حصہ بنانا ایک انوکھا کام ہے جو ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ ڈاکٹر جمن بہوتو کے دفتر میں کیا گیا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر جمن بہوتو کو سخت ایکشن لینا چاہیے اور ایوب کے خلاف کاروائی کی جانی چاہیے کیونکہ ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ مصروفیات کے باعث ڈاکٹر جمن بہوتو ان تمام معاملات سے لاعلم ہیں لیکن اس کے سرکردہ ایوب ہیں۔
یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیس ضلع جنوبی میں خسرہ اور روبیلا مہم کے فنڈز میں سنگین خرد برد سامنےآنے پر ڈائریکٹر جنرل صحت سندھ ڈاکٹر جمن بہوٹو نے اپنے عملے کو ہدایت کی تھی کہ تحقیقات کے لئے ڈی ایچ او ساؤتھ کو مکتوب ارسال کرکے طلب کیا جائے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق ڈی جی آفس کے سینئر کلرک ایوب نے اس سلسلے میں ڈی جی کے توسط سے منگل 22 نومبر کو ایک مکتوب ارسال کیا جس میںموقف اپنایا کہ انسداد خسرہ وروبیلا مہم میں کروڑوں کی خرد برد کے حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر راج کمار، یو سی ایم او صدر ڈاکٹر عدنان رضوان اور لیڈی ہیلتھ سپروائزر عائشہ کی شکایت سامنے آئی ہے حالانکہ عائشہ کا ایک سال قبل انتقال ہو چکا تھا۔
مکتوب کے مطابق ڈی جی آفس نے معاملے کی تحقیقات کے لئےسال 2019، 2020، 2021 اور 2022 کا ریکارڈ طلب کیا ۔ ڈی ایچ او کو ہدایت کی گئی کہ اکاؤنٹنٹ حنیف بلوچ کے ہمراہ ریکاڈر بھیجا جائے جس میں خسرہ اور روبیلا مہم کے فنڈز کی تفصیلات، ویکسی نیشن ٹیموں کے ٹرانسپورٹ، نقل و حرکت اور اندرونی آڈٹ کا ریکارڈ شامل ہو۔ انسداد خسرہ و روبیلا کے فنڈز پراجیکٹ ڈائریکٹر حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام نے براہ راست ڈی ایچ او کو منتقل کیے تھےجس میں خرد برد کی شکایت آئی لیکن حنیف بلوچ ڈی آفس نہیں گئے ۔ یہاں ڈی ایچ او ضلع جنوبی ڈاکٹر راج کمار کی غیر سنجیدگی سامنے آتی ہے جو حنیف بلوچ کو ڈی جی آفس بھیجنے میں ناکام رہے تاہم حنیف بلوچ نے ایوب سے ساز باز کرکے ڈاکٹر راج کمار کو مطمئن کر دیا۔
طلب کیے جانے کے باوجود حنیف بلوچ کا پیش نہ ہونا ڈی جی ہیلتھ کی ررٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے لیکن اولذکر مردہ خاتون کو شامل کرنے کی طرح اس معاملے پر بھی ڈی جی آفس حیدرآباد کے سینئر کلرک ایوب نے ڈاکٹر جمن بہوتو کو اندھیرے میں رکھا اور رشوت وصولی کےعوض معاملہ ہینڈل کر لیاکیونکہ سینئر کلرک ایوب کلی طور پر ڈی جی آفس کےمنتظم مانے جاتے ہیں اور تمام انتظامی اورمالی امور انہی کی مرضی سے سرانجام دیئے جاتے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق پی ڈی ای پی آئی نے انسداد خسرہ روبیلا مہم میں کروڑوں کے فنڈز براہ راست ڈی ایچ او زکو فراہم کیے تھے جو دیگر اخراجات کے ساتھ ان ویکسی نیٹرز کو فراہم کیے جانے تھے جنہوں نے مہم میں حصہ لیا لیکن ضلع جنوبی میں سینکڑوں ویکسی نیٹرز کو ظاہر کرکے فنڈز میں خرد برد کی گئی۔ حنیف بلوچ نے ایسے افراد کے نام تنخواہیں جاری کیں جنہوں نے مہم میں حصہ نہیں لیا پھر وہ پیسے ڈی ایچ او کے ساتھ ساز باز کرکے تقسیم کر لئے۔ اس کے علاوہ ٹرانسپوٹ کے نام پر بھی خرد برد کی گئی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ حنیف بلوچ اس مافیا کا حصہ ہے جو ایم کیو ایم کے دور میں کراچی کے تمام ٹاوئنز سے صحت کے ٹھیکے لیتی تھی ۔ حنیف بلوچ خود کئی کمپنیوں کے بالواسطہ مالک ہیں جو ان کے دوستوں کے نام پر ہیں ۔ ان کمپنیوں میں سے معروف ترین حق انٹرپرائزر ہے جس اب بھی ضلع جنوبی سمیت سے تمام اضلاع سے ٹھیکے دیئے جاتے ہیںاور یہ کمپنی شارٹ سپلائی کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے ۔ یہ کمپنی حنیف بلوچ کے ساتھی اورمحکمہ صحت کے ملازم کے نام پر ہے ۔ اس وقت اس کمپنی کو ان کے ساتھی ولی محمد پٹیل چلا رہے ہیں۔