اتوار, جولائی 6, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

پاکستانی طبی جامعات کا دنیا میں گرتا ہوا معیار ؛ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کا حکومت کو انتباہ

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیاں جو میڈیکل کی ڈگریاں دے رہی تھیں۔ان کے پروگرامز کوبیرون ممالک میں تسلیم کیا جاتا تھا لیکن نئی جامعات کے کورسز کو بیرون ممالک میں ریکوگنائز نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے پاکستانی ڈاکٹرز کو شرمندگی اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

انہوں نے حکومت پاکستان وفاقی وزارت صحت، منسٹری آف فارن افیئراور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے مطالبہ کیا کہ اپنی ڈگری پروگرامز کو بیرون ممالک میں تسلیم (ریکوگنائز)کرانے میں اپنا بھرپورکردار ادا کریں۔ورنہ اِن عہدوں سے چمٹے رہنا قومی دولت اور ہیلتھ پروفیشنلز کے وقت کا ضیاع ہے۔

ان خیالات کا اظہار صدر پی ایم اے لاہورپروفیسر اشرف نظامی، جنرل سیکریٹری پروفیسر شاہد ملک، نائب صدر ڈاکٹر ارم شہزادی،فنانس سیکریٹری ڈاکٹر واجد علی، وائے ڈی اے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر سلمان کاظمی اور دیگر نے پی ایم اے ہائوس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قائم شدہ میڈیکل یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کا بیرون ممالک میں تسلیم نہ کیا جاناوزارت خارجہ، وفاقی و صوبائی وزارت صحت اور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرزکی ناکامیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس اہم مسئلے پر نہ تو حکومت کی جانب سے کوئی اجلاس بلایا گیا، اورنہ ہی وائس چانسلرز نے اس مسئلے پر کوئی بات کی بلکہ اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہوئے اپنے فرائضِ منصبی سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب تک 19 میڈیکل یونیورسٹیاں قائم ہو چکی ہیں۔ بدقسمتی سے ان کے بہت سے ڈگری پروگرام بیرون ممالک میں تسلیم ہی نہیں کیئے جاتےجبکہ ان یونیوسٹیوں نے یہ ڈگری پروگرام ملک میں قائم ریگولیٹری اتھارٹیز جن میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان میڈیکل کمیشن شامل ہیں کی اجازت سے شروع کیے ہیں۔

رہنماؤں کا کہنا تھا کہ حکومت نے جب سے میڈیکل یونیوسٹیاں قائم کی ہیں مبینہ طور پر ان کو اب تک بیرون ممالک میں متعارف ہی نہیں کروایا گیا۔جبکہ جو یونیورسٹیاں پہلے سے پاکستان میں موجود ہیں، جیسے پنجاب یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور دیگر یونیورسٹیاں جو میڈیکل کی ڈگریاں دے رہی تھیں،ان کے پروگرامز کوبیرون ممالک میں تسلیم کیاجاتا تھالیکن نئی یونیورسٹیاں جو پروگرام کروارہی ہیں، جیسا کہ ماسٹرز آف سرجری(ایم ایس)، ماسٹرز آف میڈیسن (ایم ڈی)، ایم فل پبلک ہیلتھ اور دیگر پروگرام شامل ہیں، جن کو بیرون ممالک میں نہیں مانناجاتا۔

انہوں نے کہا کہ حقیقت حال یہ کہ ان پروگرامز کی بیرون ممالک میں پہچان کروانے کے لیے ہائیرایجوکیشن کمیشن، پاکستان میڈیکل کمیشن اوران یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو بیرون ممالک کے وفود کو پاکستان میں وزٹ کروانے کے ساتھ ساتھ، ان تما م یونیوسٹیوں کو اپنے پروگرامز منظوری کروانے کے لیے باقاعد فیسیں بھی بیرو ن ممالک کو ادا کرنی ہوتی ہیں۔

ان کا مذید کہنا تھا کہ یہ امر انتہائی قابل افسوس ہے کہ ان پروگرامز کی بیرون ممالک میں پہچان کروانے کے لیے نہ تو گورنمنٹ تیار ہے، نہ ہی وائس چانسلرز کوئی کردار ادا کر رہے ہیں۔بلکہ وزارتِ خارجہ، وفاقی وزارت صحت اور منسٹری آف فارن افیئر بھی اس معاملے میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز جب ان ڈگریوں کو لے کر بیرون ممالک جاتے ہیں تو وہاں پر ان ڈگریوں کی وجہ سے بہت سے مسائل کے ساتھ ساتھ شرمندہ ہوناپڑتاہے۔

انہوں نے وفاقی وزارت صحت، منسٹری آف فارن افیئراور یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے مطالبہ کیا کہ اپنی ڈگری پروگرامز کو بیرون ممالک میں تسلیم (ریکوگنائز) کرانے میں اپنا بھرپورکردار ادا کریں۔وگرنہ اِن عہدوں سے چمٹے رہنا قومی دولت اور ہیلتھ پروفیشنلز کے وقت کا ضیاع ہے۔