پاکستان میں ڈاکٹروں کی اخلاقی تربیت کے لئے کوئی نظام موجود نہیں ۔ڈاکٹروں کو اس بات کی تربیت نہیں دی جاتی کہ مریض کی صحت یا وفات سے متعلق بری خبر اہل خانہ کو کیسے بتائی جائے ۔
اکثر وبیشتر مریضوں کے اہل خانہ افسوس ناک خبر کو برداشت نہیں کر پاتے اور مشتعل ہو جاتے ہیں جس سے ڈاکٹروں اور طبی عملے پر تشدد کی شرح بڑھ رہی ہے ۔
بین الاقوامی امدادی تنظیم آئی سی آر سی یا انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے پاکستان میں طبی عملے پر تشدد کو جانچنے کے لئے ایک ملک گیر سروے کیا تھا جس میں جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی ، خیبر میڈیکل یونیورسٹی ، یونیورسٹی آف لاہور اور اسریٰ یونیورسٹی اسلام آباد کے ماہرین شامل ہیں جنہوں نےشعبہ طب سے وابستہ ہزاروں افراد کے انٹرویو کیے تھے۔
آئی سی آر سی نے راستہ دیں،پہلے زندگی اوربھروسا کریں کے عنوانات سے 3مہمات بھی چلائی تھیں جن کا مقصد اسپتالوں کے اندر ہونے والے تشدد کے واقعات میں کمی لانا ، ایمبولینسوں کو راستہ دینا، طبی عملے اور طبی سہولیات کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا جبکہ طبی عملے کے لئے تربیتی نشستیں بھی منعقد کی گئیں لیکن اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا۔
پاکستان کے سینئر ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ طبی عملے پر تشدد ایک انسانی المیہ ہے جو طبی سہولیات کی فراہمی اور اُس تک رسائی میں مشکلات پیدا کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ یہ مسئلہ بیماریوں کے روک تھام اور خاتمے میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے اس لئے طبی عملے پر تشدد کسی صورت قابل قبول نہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ نوجوان ڈاکٹروں میں تربیت کا فقدان ہے اسی لئے تشدد کے کیسز بڑھ رہے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے اس کے تدارک کے لئے موثر پالیسیاں نہیں بنائی جارہیں ۔ مختلف اسپتالوں میں تشد د کےواقعات بڑھنے پرسیکورٹی طلب کر لی جاتی ہےجو مسئلے کا حل نہیں ۔
ماہرین صحت کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت طبی تعلیم کے نصاب میں اخلاقی تربیت کو بھی شامل کرے تاکہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہوسکیں اور طبی عملے پر تشدد کو روکا جاسکے