اتوار, اکتوبر 5, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

کراچی کی ماں نے بیٹے کے اعضاء عطیہ کر کے دو زندگیاں بچا لیں، ذاتی صدمہ انسانیت کے لیے قربان

کراچی : سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کی کنسلٹنٹ نیفرولوجسٹ ڈاکٹر مہر افروز نے ایک ایسا عظیم قدم اٹھایا جو انسانیت کے لیے ایک روشن مثال بن گیا۔ انہوں نے اپنے 23 سالہ بیٹے کی دماغی موت کے بعد اس کے اعضاء عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس سے دو مریضوں کو نئی زندگی مل گئی۔

ڈاکٹر مہر افروز کے بیٹے سلطان ظفر، جو ڈینٹل سرجری کے طالب علم تھے، ایک المناک حادثے کا شکار ہو کر شدید دماغی چوٹوں کے باعث مقامی اسپتال کے آئی سی یو میں داخل ہوئے۔ ایک ہفتے کی مسلسل کوششوں کے بعد ڈاکٹروں نے انہیں دماغی طور پر مردہ قرار دے دیا۔

اس کٹھن لمحے میں جب کوئی بھی ماں ہمت ہار سکتی تھی، ڈاکٹر مہر افروز نے ذاتی دکھ کو پسِ پشت ڈال کر انسانیت کا علم بلند کیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے اعضاء عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا، ان کے دو گردے ایسے مریضوں کو پیوند کیے گئے جو ڈائیلاسز پر تھے اور ان کے خاندانوں میں کوئی اعضاء عطیہ کرنے والا موجود نہیں تھا۔ ایس آئی یو ٹی کے مطابق، ان دونوں مریضوں کو طویل عرصے سے گردوں کے عطیے کا انتظار تھا اور یہ پیوندکاری ان کی زندگی کی واحد امید بن چکی تھی۔

ایس آئی یو ٹی کے بانی و ڈائریکٹر پروفیسر ادیب رضوی نے ڈاکٹر مہر افروز کے اس اقدام کو قابلِ تقلید قربانی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قدم نہ صرف دو مریضوں کو زندگی کی طرف واپس لے آیا، بلکہ معاشرے کو یہ پیغام بھی دے گیا کہ اعضاء عطیہ کرنا ایک اعلیٰ ترین انسانی خدمت ہے۔ ہم سب کو اس روایت کو اپنانا چاہیے تاکہ ہم موت کے بعد بھی کسی کی زندگی کا ذریعہ بن سکیں۔

پاکستان میں ہزاروں مریض ایسے ہیں جو گردے، جگر، دل یا دیگر اعضاء کے ناکارہ ہونے کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں مگر اعضاء عطیہ کرنے کے رجحان کی کمی ان کی امیدوں کو ختم کر دیتی ہے۔ ڈاکٹر مہر افروز جیسے افراد کے عملی اقدامات سماجی شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت کی نشان دہی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مہر افروز کا یہ قدم نہ صرف ایک ماں کی قربانی کا عکس ہے بلکہ پاکستان بھر میں اعضاء عطیہ کرنے کی تحریک کے لیے ایک نئی روح بھی ہے۔ یہ ایک پیغام ہے کہ زندگی ختم ہو سکتی ہے، مگر انسانیت نہیں۔

ایس آئی یو ٹی نے اس موقع پر تمام شہریوں، اداروں، اور حکومت سے اپیل کی ہے کہ اعضاء عطیہ کرنے کے رجحان کو فروغ دیا جائے، قانونی اور مذہبی رہنمائی فراہم کر کے لوگوں کو اعتماد دیا جائے، ایسے اقدامات کو معاشرتی طور پر سراہا اور نمایاں کیا جائے