نوشہروفیروز / کراچی : نرسنگ برادری کے خودساختہ نمائندے اور سوشل میڈیا پر سرگرم تھارو خان خاکی کا گھوسٹ ملازم ہونا بے نقاب ہو گیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق اسٹاف نرس تھارو خان (بی ایس-16) گزشتہ چار ماہ سے سرکاری ڈیوٹی سے غائب ہیں جبکہ وہ کراچی میں نرسنگ کے نام پر سیاست اور پروگرامز کرا رہے ہیں۔
ڈی ایچ او نوشہروفیروز کی جانب سے 14 اپریل 2025 کو جاری کردہ خط کے مطابق تھارو خان کی غیر حاضری پر انکوائری کا حکم جاری کیا گیا ہے اور ان کے خلاف باضابطہ تفتیش 16 اپریل کو سول اسپتال نوشہروفیروز میں کی گئی۔ دوسری جانب، سندھ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کراچی نے 29 مئی 2025 کو ایک وارننگ لیٹر جاری کرتے ہوئے ان سے وضاحت طلب کی کہ وہ بغیر کسی اجازت کے کئی ماہ سے ڈیوٹی سے غیر حاضر کیوں ہیں، بصورت دیگر ان کے خلاف سندھ سول سرونٹس رولز 1973 کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی۔

تھارو خان کراچی میں نرسنگ کے نام پر سرگرم سیاسی چہرہ بن چکے ہیں۔ وہ اکثر نرسنگ پروگرامز میں مہمان کے طور پر شریک ہوتے ہیں، مختلف شہروں میں نرسز یونینز کے ساتھ تصاویر شیئر کرتے ہیں اور نرسنگ شعبے سے منسلک سینئر افسران جیسے پرنسپل، کنٹرولر، ڈائریکٹر نرسنگ وغیرہ کی تعریفی پوسٹس اپنے فیس بک پیج پر لگاتے رہتے ہیں۔
یہاں ایک اہم سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا ایک سرکاری نرس کو اجازت ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر “نرسز میڈیا پلیٹ فارم” کے نام سے فیس بک پیج چلائے اس کے ذریعے افسران پر پریشر ڈالے؟ کیا ایک سرکاری نرس کو حق حاصل ہے کہ وہ مختلف نجی نرسنگ اداروں اور تربیتی اسکولوں کی پروموشن کرے، ان کے اشتہارات پوسٹ کرے اور ذاتی تشہیر کا ذریعہ بنے؟

یہ سرگرمیاں حکومتی ضابطہ اخلاق، سرکاری ملازمین کے قواعد سول سرونٹ رولز اور غیر جانب دارانہ سرکاری کردار کے بالکل منافی ہیں۔ اگر محکمہ صحت نے واقعی ان حرکات پر آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے، کیا سندھ حکومت خود ان ’گھوسٹ ملازمین‘ کی پشت پناہی کر رہی ہے؟ کیا تھارو خان کی غیر حاضری پر محکمہ صحت کی خاموش بھی ملی بھگت کا نتیجہ ہے؟ کیا وہ صرف “سوشل میڈیا نرس” ہیں، جو گراؤنڈ پر مریضوں سے ناتا توڑ کر، پبلسٹی کی دنیا میں گھس چکے ہیں، کیا انہیں نرسنگ کے طاقتور افسران کی پشت پناہی حاصل ہے؟
یہ انکشافات اس وقت سامنے آئے ہیں جب سندھ بھر میں نرسنگ سروسز بحران کا شکار ہیں اور اسپتالوں میں اسٹاف کی کمی سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ایسے میں حکومت کو سخت اور فوری کارروائی کرنا ہوگی تاکہ نرسنگ شعبے میں موجود گھوسٹ ملازمین کا خاتمہ ہو اور اصل خدمت گاروں کو ان کا حق مل سکے۔