ماہرین صحت نے کہا ہے کہ ذیابیطس اور اس سے متعلق پیچیدگیاں جیسے کہ اندھاپن، گردے ناکارہ ہو جانا، سٹروک، دل کا دورہ اور پیروں کاکاٹ دینا، مریضوں اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے بھاری اخراجات کا باعث بنتی ہیں اور صحت کے نظام پر بھی بوجھ بنتی ہیں۔ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں عالمی یوم ذیابیطس کے موقع پر ہونے والے سیمینار میں اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی گئی ۔
شعبہ کنٹنیوڈ میڈیکل ایجوکیشن کی جانب سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر امجد سراج میمن کاکہناتھاکہ33 ملین پاکستانی ذیابیطس کا شکارہونے کی وجہ سے بھاری اخراجات کا سامنا کرتے ہیںمعاشی بوجھ سے بچنے کے لیے ذیابیطس کے مریضوں کو ترجیحی سہولیات فراہم کرنی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ذیابیطس کے پھیلاؤ میں تیزی کے باعث مستقبل میں ہونے والے اخراجات کو کم کرنے کے لیے آج ترجیحی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے۔
مہمان خصوصی بقائی یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ڈائبیٹک فٹ ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اظہر میاں تھے جنہوں نے بتایا کہ ذیابیطس کے مریضوں میں السر کی شکایت عام ہے جو علاج نہ کرنے کی صورت میں شدید درد، انفیکشن اور جسم کے حصوں کو قطع کرنے تک کی نوبت لا سکتا ہے۔ انہوں نے مریضوں کے پیروں کی حفاظت پر انتہائی زور دیتے ہوئے بتایا کہ ضرورت کے باوجود دنیا میں فقط 19ملکوں میں پاؤں کی خصوصی نگہداشت کی سہولیات میسر ہیں۔
سندھ میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر مسرور احمد نے ڈاکٹر اظہر میاں کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ ذیابیطس کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے بہت احتیاط اور علامات کیمسلسل نگرانی ضروری ہے۔
قبل ازیں سیمینار کا آغاز کرتے ہوئے منتظم ایڈیشنل ڈائریکٹر سی ایم ای ڈاکٹر راحت ناز نے حاضرین کو آگاہ کیا کہ بار بار پاؤں میں السر ہونے سے پاؤں کٹنے کا خدشہ ستر فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ رجسٹرار ڈاکٹر اعظم خان، پرو وائس چانسلر پروفیسر سعدیہ اکرم، ڈسٹنگوشڈ نیشنل پروفیسر اقبال آفریدی ، سربراہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایجوکیشن پروفیسر سیدہ کوثر، سربراہ انسٹی ٹیوٹ آف فیملی میڈیسن ڈاکٹر کرن ذیشان اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن قاضی شبیر سیمینار میں موجودتھے