ہفتہ, جون 21, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

سندھ کے طبی عملے کے حصے میں ہزاروں مریضوں کی بد دعائیں ؛ قائدین بک گئے ؛ عملہ رسوا ہوگیا

کراچی : گرینڈ ہیلتھ الائنس کے تحت کامیاب مذاکرات اور دھرنے کے اختتام پر جہاں مریضوں نے سکھ کا سانس لیا وہاں طبی عملے کی بڑی تعداد دکھ میں مبتلا ہوگئی ہے۔ طبی عملہ سمجھتا ہے کہ وہ سڑکوں پر خوار ہوئے، ماریں کھائیں، تشدد برداشت کیا، تھانے اور جیلوں میں گئے، پرچے کٹوائے، بھوک برداشت کی، سڑکوں پر راتیں گزاریں لیکن اس کے باوجود مطالبات منظور نہیں ہوئے، ہیلتھ رسک الاؤنس کا اجراء نہیں ہوا اور بدقسمتی سے ان کے رہنماؤں نے انہیں فروخت کر دیا۔

طبی عملے کو افسوس ہے کہ ان کی وجہ سے ہزاروں مریض پریشان ہوئے، سینکڑوں آپریشن ملتوی ہوئے، سینکڑوں مریضوں کی جانیں ان کی بے حسی کی وجہ سے خطرے میں پڑگئیں جبکہ درجنوں مریض ہلاک بھی ہوئے لیکن ان کی لالچ یا جائز حقوق کی خواہش جس مقصد کے لئے انہوں نے دھرنا دیا وہ بھی پورا نہ ہوسکا۔

طبی عملے میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس اور لیڈی ہیلتھ ورکرز سمیت غیر طبی کی بڑی تعداد شامل تھی۔ سندھ کی نرسوں نے پہلی بار دیکھا کے مضبوط اعصاب کے مالک اور ہر معاملے پر استقامت دکھانے والے اعجاز  کلیری بھی بک گئے۔ سندھ میں اس سے قبل بھی نرسوں کے احتجاج اور دھرنے ہوئے اور اعجاز کلیری کی قیادت میں ہمیشہ وہ سرخرو ہوئے۔ انہیں اس بار بھی امید تھی لیکن اعجاز کلیری اس امید پر پورا نہ اتر سکے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز کی رہنما چٹان جیسے حوصلے والی بشریٰ ارائیں نے بھی اپنی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مایوس کیا اور حوصلہ ہار کر مفادات پر سودے بازی کر ڈالی۔ اس سے قبل بشریٰ ارائیں کی قیادت میں کئی دھرنے اور مظاہرے ہوئے اور ہمیشہ جائز حقوق پورے کرائے گئے لیکن اس بار مایوسی ہوئی۔

پیرا میڈیکس جو اخلاق احمد خان، سلمان میمن، نیاز خاصخیلی اور قیوم مروت کے ساتھ تھے انہیں بھی ان کے قائدین نے دھوکہ دیا۔ اخلاق احمد خان بلند حوصلے والے ہیں لیکن اپنے کارکنوں کو مایوس کرگئے ۔ نیاز خاصخیلی جو کارکنوں کی پس پردہ مدد کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ پہلی بار کارکنوں کی جدوجہد کے لئے کھل کر سامنے آئے لیکن ناکام ہوکر اپنے ساتھیوں کو رسوا کرگئے۔ سلیمان میمن اور قیوم مروت سندھ سرکار سے قریبی تعلق رکھنے کے باوجود صرف اپنی سیاست چمکاتے رہے۔

احتجاج کا سب سے بڑا فائدہ ڈاکٹروں کو حاصل ہوا کہ رسک الاؤنس کے علاوہ انہوں نے تمام مطالبات منوالیے۔ ڈاکٹر وارث جھکرانی نے جو گرفتاری دے کر پرچہ کٹوایا وہ کارآمد ثابت ہوا اگرچہ رسک الاؤنس نہ مل سکا۔ ڈاکٹر یاسین عمرانی گرفتاری کے موقع پر فرار ہوگئے لیکن جناح اسپتال میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ ڈاکٹر عمر سلطان بھی گرفتاری سے فرار ہوکر کوئی خاطر خواہ مزاحمت نہ دکھا سکے اور اپنے ساتھی ینگ ڈاکٹروں کے لئے مایوسی کا باعث بنے۔

مریضوں نے ہڑتال ختم ہونے کو خوش آئند قرار دیا ہے لیکن حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔ مریضوں کا کہنا ہے کہ اگر یہ سنجیدگی حکومت پہلے دکھاتی تو ان کے پیاروں کی جانیں نہ جاتیں اور انہیں علاج کی سہولت مل جاتی۔