گرینڈ ہیلتھ الائنس کو ایک ماہ سے زائد عرصہ کی جدو جہد میں حاصل کیا ہوا؟ اس تحریک کے نتیجے میں مریض اپنی موت آپ مرگیا، حکومتِ سندھ نے تمام تر صورتحال کا ذمے دار طبی عملے کو پہنچایا تو دوسری جانب تنخواہوں میں ہیلتھ رسک الاؤنس کی کٹوتی کے باعث پیش آنے والی طبی عملہ کی مشکلات بھی بجا ہیں جسے قطع نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تمام تر وجوہات اپنی جگہ لیکن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے صدقے وجود میں آنے والی سندھ حکومت اور خواتین کی علمبردار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے نہ سابق وزیرِ اعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے فلسفہ و نظریات کی لاج رکھی نہ ہی حقوق کی جدو جہد کے باعث شہادت کا رتبہ حاصل کرنے والی قوم کی بہادر بہن بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو شہید پر ظُلم و بربریت کو یاد رکھا۔

وزیرِ صحت ڈاکٹر عذرا فضل اللہ پیچیہو کے ایک بیان (ڈاکٹروں حرام کھانا بند کردو) نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور تمام ڈاکٹروں نے آپسی اتحاد قائم کرلیا مرتا کیا نہ کرتا پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی پیپلز پیرا میڈیکل اسٹاف کے دونوں بڑے دھڑوں سمیت تمام طبی تنظیموں نے بھی ڈاکٹروں کے اتحاد میں شامل ہونے کا اعلان کیا تو لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن نے بھی اتحاد میں شمولیت اختیار کرلی۔ سندھ میں حکومت چاہئے کوئی بھی ہو جلسے جلوسوں اور دھرنوں میں کمال کا روح پُھوکنے والی خواتین کا تعلق ہمیشہ سے خاندانی منصوبہ بندی سے رہا ہے۔ چاہے وہ ایم کیو ایم کا دورے اقتدار ہو یا سائیں سرکار خاندانی منصوبہ بندی کی خواتین کو چھوٹی موٹی جلسی جُولسی دھرنی کو بڑے بڑے جلوسوں اور دھرنوں میں تبدیل کر دینے کا فن بخوبی آتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محکمہ صحت کا شبہ خاندانی منصوبہ بندی (نیشنل پروگرام) کو ایک الگ حیثیت حاصل ہے جیسے تمام حکومتیں اپنے اپنے ہاتھوں استعمال کرتی ہیں اور نیشنل پروگرام کو محکمہ صحت کی ریڑ کی ہڈی کے مانند سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن کی موجودہ سربراہ بشرہ بی بی نے دھرنے میں چار چاند لگا دیئے اور سندھ سیکریٹریٹ پیپلز اسکوائر کے گیٹ پر دھرنے میں خواتین ہیلتھ ورکرز کا ہجوم ایک کٹھا کر دکھایا اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کے دھرنے میں کمال کی روح پھونک ڈالی۔ اس اثناء میں خواتین طبی عملے نے غلط حکمتِ عملی کے باعث ٹھان لی کے انہیں سی ایم ہاؤس کے گھیراؤ اور وہیں پر پڑاؤ ڈالنا ہے خواتین ہیلتھ ورکرز نے مردوں سے کئی سو قدم آگے بڑھ چڑھ کے سی ایم ہاؤس کی جانب مارچ شروع کردیا تو جی ایچ اے کے مرد حضرات سائیں سرکار کے سپاہیوں کی عدم مداخلت کے باعث منتشر ہوگئے۔
اس دوران خاتون پولیس اہلکاروں نے ہاتھوں کا بند باندھنا شروع کردیے لیڈی ہیلتھ ورکرز نے اپنی طاقت کا مظاہرہ دکھایا اور آرٹ کونسل گیٹ تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی جہاں خواتین پولیس اہلکاروں اور خواتین طبی عملے میں کشیدگی دیکھنے میں کو ملی ساتھ ہی چند طبی عملے کے مرد حضرات نے خواتین طبی عملے کا ساتھ دینے کی کوشش کی تو انہیں فوری گرفتار کرلیا گیا بعدازاں انہیں رہا کردیا گیا۔ اس دوران جی ایچ اے کے سرکردہ رہنماؤں پر بیک ڈور رابطوں جیسے بے بنیاد الزامات بھی لگنا شروع ہو گئے کیوں کے مراعت اور عہدوں کی بندر بانٹ کرنے والی شخصیات اختیارات سے محروم تھے تو دوسری جانب وزیرِ صحت کی ملک میں عدم دستیابی نے فضول افواہوں کو زیادہ پنپنے نہیں دیا۔
یہاں سائیں سرکار نے طبی عملے کو لولی پاپ دیتے ہوئے کمیٹیاں شمیٹیاں بھی تشکیل دینا شروع کردیں لیکن کس وزیر میں اتنی جرات تھی کے وہ ادی عذرا کے محکمہ میں مداخلت کرے۔ وہیں ذرائع بھی میدان میں کود پڑے مختلف ذریعوں کا وزیروں کے حالتِ ذار پر کُچھ یوں کہنا تھا بابا وڈے سائیں نے تو ہم سے دشمنی نکالی ہے ہم نے تو بابا سائیں کو منع بھی کیا تھا کے ہمیں کمیٹی شمیٹی میں مت ڈالو۔ بابا انکے رسک الاؤنس کے چکر میں ہماری وزارتِ رسک پر لگ جائیں گی لیکن وزیرِ اعلیٰ سندھ نے ایک نہ معنی اور ہماری وزارتیں کو داؤ پر لگا دیا۔ اب دھرنا چوتھے روز میں داخل ہوگیا پھر جو ہوا وہ دنیاں نے دیکھا جمہوریت کے علمبرداروں نے نہ مرد دیکھا نہ عورت سب ہی کو سڑکوں پر گھسیٹا خواتین کی وہ بے حرمتی و تذلیل کی گئی کے شائد اِنسانیت کا جمہوریت سے اعتبار ہی اُٹھ جائے۔
آخر میں سربراہ پاکستان پیپلز پارٹی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے مداخلت کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو معاملات کو جلد حل کرنے کی ہدایات جاری کیں لیکن ہیلتھ رسک الاؤنس دینے سے واضع انکار کیا مطلب جو جس تنخواہ پر کام کر رہا تھا وہ اسی تنخواہ پر لولی پاپ تھامے کام کریگا لیکن افسوس در افسوس بلاول بھٹو زرداری نے خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور تذلیل پر ایک لفظ مزاحمت کا جاری نہیں کیا! کاش کے تمام طبی عملے کی خواتین مریم نواز ہوتیں اور بلاول بھٹو زرداری انکی بھی سخت لفظوں میں مزاحمت کرتے کاش! کاش! کاشْ