جمعرات, جون 19, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

محکمہ صحت کی ہٹ دھرمی، طبی عملے کی بے حسی : سندھ میں مریضوں کی ہلاکتوں کا خدشہ پیدا ہوگیا

سندھ میں طبی عملے کا احتجاج 22ویں روز پیر کو بھی جاری رہا ۔ گزشتہ دنوں کے مقابلے میں پیر کو او پی ڈیز کے ساتھ آپریشن تھیٹرز، آئی سی یو، ایچ ڈی یو اور دیگر سروسز کا بھی بائیکاٹ کیا گیا جس سے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہزاروں مریض بغیر علاج گھروں کو روانہ ہو گئے جبکہ سینکڑوں کے آپریشن ملتوی ہو گئے۔ طبی عملے نے صرف شعبہ حادثات میں سہولیات کی فراہمی جاری رکھی ۔

گرینڈ ہیلتھ الائنس نے منگل کو پریس کلب پر دھرنا کا اعلان کیا ہے جس کے لئے الائنس کے رہنماؤں نے بھر پور تیاری کے ساتھ اپنے ویڈیو پیغامات بھی چلائے ہیں جس میں طبی عملے کو ہدایت کی ہے کہ بسیں بک کراکے کراچی پریس کلب پہنچیں جہاں دھرنا دیاجائے گا اور پھر وہیں سے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی جائے گی ۔ اگر کامیاب ہوگئے تو وزیر اعلیٰ سندھ ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے ۔

سندھ میں طبی عملے کے دھرنوں کی طویل تاریخ ہے لیکن ان دھرنوں کے اختتام پر ہمیشہ طبی عملے کے مطالبات پورے کیے گئے جس نے طبی عملے کی حوصلہ افزائی کی ۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی اکثر حکومت سے یہ سوال کرتے نظر آئے کہ اگر طویل بائیکاٹ اور دھرنوں کے بعد مطالبات منظور ہی کیے جانے ہیں تو پہلے کیوں منظور نہیں کر لیے جاتے کہ مریضوں کی جان نہ جائے اور تمام سہولیات مل سکیں لیکن حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا۔

اس ضمن میں ہمیشہ حکومت کی بدانتظامی سامنے آتی ہے جو معاملات کی سنگینی کو صحیح کیلکولیٹ نہیں کرتی اور سمجھتی ہے کہ دھونس، تبادلوں، گرفتاریوں اور دھمکانے سے طبی عملہ باز آجا ئے لیکن ایسا نہیں ہوتا۔اگر حکومت پہلے سے بیٹھ کر درست سمت میں چیزوں کو سمجھے اور حکمت عملی مرتب کرے تو یہ نوبت نہ آئے ۔ اس سارے معاملے میں محکمہ صحت کی نا اہل ٹیم بھی قصور وار نظر آتی ہے جو روز اول سے بہتری کے بجائے ناقص حکمت عملی ترتیب دیتی ہے ۔

طبی عملہ بھی اپنے حلف سے روگردانی کرتا ہے اور مریضوں کا خیال نہیں کرتا حالانکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے لیکن طبی عملے مریضوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے اور پھر یہ بوندا جواز پیش کرتا ہے کہ ہمارے گھروں میں بھی چولہے ٹھنڈے ہو جائیں گے اگر ہمارے مطالبات منظور نہ کیے اور اس کے لئے ا حتجاج کے سوا کوئی راستہ نہیں۔

محکمہ صحت سندھ کی غیر سنجیدگی اور ہٹ دھرمی جبکہ طبی عملے کی بے حسی کے سبب ہزاروں مریض بائیس دن سے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور آئندہ چند دن مذید ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں گے جبکہ اس دوران درجنوں ہلاکتیں بھی ہوں گی لیکن نہ تو حکومت نہ ہی طبی عملے کو مریضوں کی فکر ہے اور یہ معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی نے معاملے پر حکومت اور طبی عملے کو بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا مشورہ دیا ہے کیونکہ آخر میں مذاکرات کے ذریعے حکومت اور طبی عملے کی صلح ہو جائے گی لیکن کئی قیمتی انسانوں کی جانیں ضایع ہو جائیں گی ۔