ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس سینٹرل میں جعلی ڈرگ لائسنس کے اجراء کے مذید کیسز سامنے آگئے ہیں جس پر شعبہ کی سربراہ ڈاکٹر حرا ظہیر نے پولیس سے رجوع کر لیا ہے ۔ ہیلتھ ٹائمز میں خبر کی اشاعت پر ڈاکٹر حرا ظہیر نے ہیلتھ ٹائمز کی ٹیم سے رابطہ کیا اور اپنے موقف سے آگاہ کیا۔ ڈاکٹر حرا ظہیر نے دعویٰ کیا کہ یہ انہی کا انتہائی اقدام تھا کہ جعلی ڈرگ لائسنس بنانے والے بے نقاب ہوئے ۔

ہیلتھ ٹائمز سے گفتگو کے دوران ڈاکٹر حرا ظہیر نے بتایا کہ ان ہی کے پاس شکایت آئی تھی جس پربروقت کاروائی کی گئی اور جعلی اسٹیمپیں برآمد کیں جس کے بعد سیکریٹری صحت سندھ کو سارا واقعے کی تفصیل سے آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایس ایس پی سینٹرل کو تحریری درخواست بھی جمع کرا دی ہے جس میں جونیئر کلرک ندیم الحسن صدیقی اور آفس اسسٹنٹ مصطفیٰ صدیقی کے فراڈ کے بارے میں تحریر کیاہے ۔

ڈاکٹر حرا ظہیر کا مذید کہنا تھاکہ ڈی ایس پی تھانہ شاہراہ نور جہاں اس کیس کو دیکھ رہے ہیں اور بہت جلد اس حوالے سے قانونی کاروائی بھی عمل میں لائی جائے گی ۔ محکمہ جاتی انضباطی کاروائی کے حوالے سےانہوں نے موقف اختیار کیا کہ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کورونا رسک الاؤنس کے دھرنوں کے باعث مصروف ہیں اس لئے سخت کاروائی نہیں ہوسکی تاہم بہت جلد مصطفیٰ قریشی بھی رپورٹ ہو جائیں گے ۔

اس معاملے میں ہنوز ڈاکٹر حرا ظہیر کی غفلت موجود ہے کہ ان کی ناک کے نیچے یہ جعلی ڈرگ لائسنس بنائے گئے اور ہیلتھ ٹائمز کی رپورٹ کے بعد ڈاکٹر حرا ظہیر نے مذید سختی دکھاتے ہوئے درجن بھر جعلی ڈرگ لائسنس پکڑلیے ۔

ضلع وسطی کے صحت کے باوثوق ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے قبل جب ڈاکٹر حرا ظہیر انسداد اتائیت کی سربراہ تھیں تب بھی ان کے تحت کام کرنے والے اٹینڈنٹ عبدالکاشف اور او ٹی اسسٹنٹ فیضان ضیاء جعلی چھاپوں میں لاکھوں روپے رشوت لے رہے تھے جن کی خبر ڈاکٹر حرا ظہیر کو نہیں تھی تاہم ایک موقر جریدے نے جعلی چھاپوں کا انکشاف کیا تھا۔

ٹیم ہیلتھ ٹائمز نےجونیئر کلرک ندیم الحسن صدیقی اور آفس اسسٹنٹ مصطفیٰ قریشی سے ان کا موقف جاننا چاہا لیکن دونوں افراد سے رابطہ نہیں ہوسکا۔