فرانس سے آئے کڈنی ٹرانسپلانٹ فزیشن پروفیسر لائیونل راسٹینگ نے کہاہے کہ گردے کی ناممکن یا مشکل سمجھی جانے والی پیوندکاری دور جدید میں نہ صرف ممکن ہوگئی ہے بلکہ کامیابی سے یہ ٹرانسپلانٹ پایہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں ۔خواہش ہے کہ پاکستان میں بھی فرانس کی طرح تیزی سے ٹرانسپلانٹ انجام دیے جائیں، دونوں کی رفتار ساتھ ساتھ ہوجائے کیونکہ یہاں بہت سے ایسے بہت سے مریض ٹرانسپلانٹ کے منتظرہیں جنہیں ٹرانسپلانٹ سے نئی زندگی مل سکتی ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ کے زیراہتمام گردے کے پانچ سو ٹرانسپلانٹ مکمل ہونے کی تقریبات کے سلسلے میں پہلے بین الاقوامی کڈنی ٹرانسپلانٹ سمپوزیم سے خطاب کے دوران کیا۔ اس موقع پر مہمان اعزازی ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کے علاوہ رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ کے سربراہ پروفیسر راشد بن حامد نے بھی خطاب کیا ۔
پروفیسر لائیونل راسٹینگ نے کہا کہ امیونو سپریسو دواؤں سے ٹرانسپلانٹ کے بعد پیوندکاری گردے کوجسم کے لیے قابل قبول بنایا جاسکتاہے یا اسے مسترد ہونے سے بچایا جاسکتاہے ۔دواؤں کے استعمال سے ناموزوں پیوند کو موزوں بھی بنایا جاسکتاہے اور ایسی پیوندکاری جو بلڈگروپ کے میچ نہ ہونے کی وجہ سے ممکن ہوپارہی ہو اسے بھی ممکن بنا کر ٹرانسپلانٹ کی تعداد بڑھائی جاسکتی ہے ۔
پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہاکہ ڈاؤ یونیورسٹی میں گردے کی پیوندکاری کےلیے آنے والوں میں ایسے افراد کی تعداد زیادہ ہے جو مختلف جگہوں سے مسترد کیے جاتے ہیں اتنے کم عرصے میں پانچ سو ٹرانسپلانٹ کا ہدف اس لیے بھی جلدی حاصل کیا ہے ۔ صرف دواؤں اور ہونے والے اخراجات کے پیسے لیے جاتے ہیں ، منافع کے نام پر ایک پیسہ نہیں لیا جاتاہے ، یہی وجہ ہے کہ پانچ سال کے قلیل عرصے میں گردے کی پیوند کاری کا صوبے کا دوسرا مرکز ڈاؤ کا رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ بن چکا ہے ۔
رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ کے سربراہ راشد بن حامد نے سمپوزیم سے خطاب اور میڈیا سے بات کر تے ہوئے کہاکہ اس سمپوزیم کا بنیادی مقصد ہے کہ عام ڈاکٹرز اور گردے کے مرض میں مبتلا افراد کو بتایا جائے ،گردے کےامراض کا بہترین علاج کیا ہے اور کہاں کہاں کیا کیا سہولتیں دستیاب ہیں ۔گردے کے پیچیدہ امراض کا بہترین علاج پیوندکا ری ہی ہے جو ڈاؤ یونیورسٹی میںکم سے کم اخراجات میں دستیاب ہے ۔اس سمپوزیم میں پاکستان کے تقریبا تما م ہی نیفرولاجسٹ یورولاجسٹ اور ٹرانسپلانٹ سرجن کو مدعو کرنے کا مقصد یہی ہے کہ سب اپنے اپنےتجربات سے آگاہ کریں ۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے رینل ٹرانسپلانٹ کے پروفیسر تصدق خان نے کہاکہ صوبہ سندھ میں گردے کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے چونکہ چھوٹے شہروں میں ڈایا لائسس سنیٹر موجو د نہیں ہیں اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ گردے کی پیوند کاری کی استعداد بڑھائی جائے اور ہر چھوٹے بڑے شہر میں ڈایالائسس سینٹر قائم کیے جائیں ۔
سمپوزیم کے مختلف سیشنز سےدیگر مقررین پروفیسر فضل اختر (ایس آئی یو ٹی)، پروفیسر عاصم احمد (کڈنی سینٹر)، ڈاکٹر عامر قاضی (انڈس اسپتال)، پروفیسر کنورنوید، پروفیسر سنبل ناصر ،ڈاکٹر صباحت سرفراز(ڈاؤ یونیورسٹی) ، پروفیسر سلمان امتیاز ( انڈس اسپتال)، ڈاکٹر سنیل (ایس آئی یو ٹی)، ڈاکٹر عائشہ حسن میمن( آغا خان اسپتال)، پروفیسر عبدالمنان جونیجو، پروفیسر عبدالکریم زرغون،ڈاکٹرسونیایعقوب نے خطاب کیا۔
سپموزیم سے پروفیسر روبینہ نقوی (ایس آئی یو ٹی)، ڈاکٹر محمد تصدق خان (ڈاؤ یونیورسٹی)،پروفیسر وقار الدین کاشف (ساؤتھ سٹی اسپتال) ، ڈاکٹر فیصل محمود (آغا خان اسپتال)، ڈاکٹر ماہ نور اعظم(ڈاؤ یونیورسٹی)، پروفیسر سلمان امتیاز، پروفیسر پورن کمار کوہستانی، ڈاکٹر بلال جمیل ، ڈاکٹر منصور شاہ (آغا خان اسپتال)، ڈاکٹر رقیہ (کڈنی سینٹر)، ڈاکٹر شہنیلا(پٹیل اسپتال) خطاب کیا جبکہ دوسرے سیشن کی مہمان خصوصی ڈاو یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ تھیں۔