جمعہ, جون 20, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

سندھ میں محفوظ انتقال خون کی فراہمی کے لئے قائم ادارہ ناکام ؛ پولیس سے مدد طلب کر لی

سندھ میں محفوظ انتقال خون کے لئے قائم ادارے نے اپنی ناکامی پر پولیس سے مدد طلب کر لی ہے ۔ صوبے میں غیر محفوظ انتقال خون کے مکروہ دھندے کو روکنے میں سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی ناکام ہو گئی ہے ۔ اتھارٹی نےنئے بلڈ بینکوں کی رجسٹریشن بھی بند کر رکھی ہے جبکہ اتھارٹی کے بورڈ کا ایک بھی اجلاس تاحال منعقد نہیں ہوسکا۔

گزشتہ روزاتھارٹی نے شہر میں انتقال خون کی غیر قانونی سرگرمیوں کے حوالے سےتھانہ صدر پولیس کو مکتوب ارسال کیا ہے جس میں ان سے درخواست کی گئی ہے کہ اتھارٹی نے ضلع جنوبی کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ہمراہ دو افراد کو پکڑا تھا جو پلیٹ لیٹس کی فروخت کر رہے تھے حالانکہ صرف رجسٹرڈ بلڈ بینکوں کو اس کی فروخت کی اجازت ہے اس لئے ان کے خلاف کاروائی کی جائے ۔

سندھ میں ڈینگی وائرس کے بے پناہ پھیلاؤ اور میگا یونٹ پلیٹ لیٹس کی فراہمی کے حوالے سے مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے ۔ اتھارٹی مریضوں کو پلیٹ لیٹ فراہم کرنے سے قاصر ہے جس پر مریض غیر رجسٹرڈ بلڈ بینکوں سے بھی رابطہ کر رہے ہیں جنہیں اتھارٹی بند نہیں کر سکی ۔ اتھارٹی اپنے کام یعنی انسانی خون اور خون کے اجزاء کی وصولی، جانچ، پروسیسنگ، اسٹوریج، تقسیم کے اجراءاور ترسیل کے عمل میں ناکام ہے جبکہ غیر رجسٹرڈ بلڈ بینکوں کو بند بھی نہیں کر سکی۔

سندھ میں غیر محفوظ انتقال خون کا مکروہ دھندا جاری ہے جس سے ایچ آئی وی ایڈز، ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض پھیل رہے ہیں ۔سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی میں سیکریٹری کا عہدہ بھی گزشتہ کئی ماہ سے خالی ہے ۔ اتھارٹی کو ایک خاتون ڈائریکٹر کے ذریعے چلایا جارہا ہے جو پیتھالوجسٹ نہیں ۔ ان کے پاس اس حوالے سے خاطر خواہ تجربہ بھی نہیں ۔

یاد رہے کہ حکومت نے 2017 میں سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن کا قانون منظور کیا تھا جس کے تحت اتھارٹی عمل میں لائی گئی اوروزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی منظوری سےایک بورڈ تشکیل دیا گیا۔ جس میں دو اراکین صوبائی اسمبلی،سیکریٹری صحت سندھ، آغا خان یونیورسٹی اسپتال میں خون کی منتقلی کی خدمات کے ڈائریکٹر، ڈاؤ یونیورسٹی کے ڈاکٹر فرخ علی خان ،ریجنل بلڈ ٹرانسفیوژن سینٹر کراچی کے بریگیڈیئر (ر) محمد سرور خان اور سیکریٹری سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کو شامل کیا گیا۔

بورڈ کی تشکیل سے اب تک کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا جاسکا جس سے سندھ میں محفوظ انتقال خون کی فراہمی میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔