آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹرز، بائیو میڈیکل انجینئرز اور سوفٹ ویئر ڈیولپرز کی کاوشوں سے تیار کردہ کم قیمت پورٹیبل وینٹی لیٹر کو امریکہ کی سند ایجاد حاصل ہو گئی ہے۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس پیٹنٹ اینڈ ٹریڈ مارک آفس سے پیٹنٹ حاصل کرنے والی آغا خان یونیورسٹی کی ری سسیٹیشن آٹو میشن ڈیوائس جان بچانے والا تیز تر علاج فراہم کر سکتی ہے خصوصاً ایسے مریضوںکے لیے جو انتہائی درجے کے سانس کے مسائل کا شکار ہیں۔
شدید نمونیا اور کرانک آبسٹریکٹیو پلمونری ڈیزیز دو ایسے امراض ہیں جو پاکستان میں اموات کی دس اہم ترین وجوہات میں شامل ہیں۔ ان مریضوں کو وینٹی لیٹر کی ضرورت پیش آتی ہے تاہم وینٹی لیٹر کے اخراجات اور موجودہ وینٹی لیٹرز کے حجم کی وجہ سے وینٹی لیٹرز محض ہسپتالوں میں ہی موجود ہوتے ہیں۔
اے کے یو کے ٹیکنالوجی انوویشن سپورٹ سینٹر اینڈ ڈیجیٹل ہیلتھ ریسورس سینٹر کے ڈائریکٹر سلیم سیانی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہاکہ سانس لینے میں مشکل کا سامنا کرنے والے مریضوں کو دو بنیادی وجوہات کی بنا پر ہسپتالوں میں علاج اور دیکھ بھال میں تاخیر کا سامنا کر پڑ رہا ہے۔ ایک تو ایسے تربیت یافتہ عملے کا فقدان ہے جو موثر انداز سے ایمبو بیگز کو معتدل درجے کے مریضوں پر استعمال کر سکیں یعنی خود ہی انہیں پمپ کر سکیں۔ دوسرا انتہائی درجے کے مریضوں کے لیے اعلی معیار کے وینٹی لیٹرز کی کمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایمبو بیگز کا استعمال مشکل ہے۔ یہ قابل بھروسہ آلہ نہیں سمجھا جاتا اور اس کے استعمال میں پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب وینٹی لیٹرز مہنگے ہیں جن کی دستیابی کے لیے مریضوں اور ان کے اہل خانہ کو بہت دیر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آر اے ڈی کا مقصد ان ایمبو بیگز اور مہنگے وینٹی لیٹرز کے درمیان ایک پُل کا کام کرنا ہے۔ اس پیٹنٹ شدہ ڈیوائس میں بیٹری سے چلنے والی ایک موٹر لگی ہوئی ہے اور یہ خودکار انداز میں ہوا بھرتا اور خارج کرتا ہے۔ ہاتھ سے چلائے جانے والے طبی آلے ایمبو بیگ کے ساتھ ساتھ آر اے ڈی ایک خودکار نظام کے تحت کام کرتا ہے جس میں سانس کے مریض کے لیے ہوا کی فراہمی یقینی ہوتی ہے۔
آر اے ڈی کا سائز ایسا ہے کہ اسے بآسانی کسی بھی ایمبیولینس میں لگایا جا سکتا ہے اور اسی بنا پر معتدل درجے کے ایسے مریضوں کو راستے میں ہی دیکھ بھال فراہم کی جا سکتی ہے جبکہ شدید نوعیت کے مریضوں میں وینٹی لیٹر دستیاب ہونے تک آر اے ڈی کے ذریعے سانس کی فراہمی بحال کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، آر اے ڈی کو موبائل ایپلی کیشن کی مدد سے فاصلے سے بھی چلایا جا سکتا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جس وقت مریض ایمبیولینس میں ہے اسی وقت ایمرجنسی روم میں موجود ڈاکٹرز فاصلے پر موجود رہتے ہوئے آلے کی سیٹنگ کو تبدیل کر سکتے ہیں تاکہ مریض بحفاظت ہسپتال میں منتقل ہو سکے۔ یہ ایپلی کیشن ہسپتال کے عملے کو مریض کے ہسپتال پہنچنے سے قبل اس کی صحت کی تازہ ترین صورتحال تک رسائی بھی فراہم کرتی ہے تاکہ اسی کے مطابق فوری امداد فراہم کی جا سکے۔
اے کے یو کے سینٹر آف ایکسیلینس فار ٹراما اینڈ ایمرجنسیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جنید رزاق کے مطابق بروقت وینٹی لیشن میسر نہ آنے کی وجہ سے بہت سے جانیں ضایع ہو چکی ہیں اور اگر وینٹی لیٹر دستیاب بھی ہو تو اس کو چلانے کا طریقہ کار عموماً پیچیدہ ہوتا ہے؛ اس کے علاوہ وینٹی لیٹرز مہنگے ہوتے ہیں اور ان کو چلانے کے لیے بجلی کی بہت بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ انفیکشن، سر کی چوٹ، نشہ آور ادویات کی ذیادتی، یا گرمی کے حملے ہسپتالوں اور کلینکس میں یا ہسپتال پہنچنے کے دوران ان تمام صورتحال میں مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے۔
اے کے یو کے ڈیپارٹمنٹ آف انیستھیسولوجی کے چیئر اسد لطیف کا اس موقع پر کہنا تھا کہ پاکستان جیسے کم آمدنی والے ممالک میں ایمبیولینس میں کم قیمت موبائل وینٹی لیٹرز کا استعمال جو ہسپتال سے موبائل ٹیکنالوجی کی مدد سے منسلک ہوں، مریضوں کی زندگی پر بے حد مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے اور جان بچنے کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
پورٹیبل، خودکار وینٹی لیٹرز کا تصوراگست 2016 اے کے یو کے افتتاحی طبی ہیکاتھون کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ اے کے یو کے سینٹر آف ایکسیلینس فار ٹراما اینڈ ایمرجنسیزکی ڈائریکٹر ڈاکٹر حوبی عتیق اس ٹیم میں شامل تھیں جس نے یہ منفرد خیال پیش کیا تھا۔ آر اے ڈی کے تصور کے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پاکستان میں صحت عامہ کے موزوں ڈھانچے کی عدم موجودگی کے باعث انتہائی نوعیت کے مریض ہسپتالوں تک تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ اگر مریض کسی طرح ایک لمبا سفر طے کر کے ثالثی دیکھ بھال فراہم کرنے والے ہسپتال پہنچ بھی جائیں تب بھی انتہائی دیکھ بھال فراہم کرنے والا نامکمل نظام، تربیت یافتہ عملے اور وسائل کا فقدان، خصوصاً وینٹی لیٹرز، اموات میں اضافے کی وجہ بنتے ہیں۔
ان کا مذید کہنا تھا کہ ایک کم قیمت، آسانی سے چلایا جانے والا، میکینیکل وینٹی لیٹر ایک ایسا حل فراہم کر رہا ہے جس سے نظام میں موجود اس خلا کو پر کیا جا سکتا ہے اور انتہائی نوعیت کے مریضوں کو بروقت موزوں دیکھ بھال فراہم کی جا سکتی ہے۔آر اے ڈی کے استعمال کے لیے آزمائشی مطالعات کا جلد ہی آغاز کیا جا رہا ہے تاکہ یہ جانچا جائے کہ سانس کے مسائل کے حامل مریضوں کے لیے یہ کتنا محفوظ و موثر ہے۔ ابتدائی ٹیسٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آلہ مصنوعی مریض میں آکسیجن کی سطح کو بحال کرنے اور بحال رکھنے میں مسلسل فراہم کر سکتا ہے۔
ٹیم کو توقع ہے کہ آزمائشی مطالعات کے بعد آر اے ڈی کو ایک سال کی مدت میں استعمال کے لیے باقاعدہ طور پر متعارف کروایا جا سکتا ہے۔ اس آزمائشی مطالعے کے مقاصد اقوام متحدہ کے سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گول 3 سے ہم آہنگ ہیں جس کے تحت قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی متعدی امراض مثلاً نمونیا اور غیر متعدی امراض مثلاً دمہ اور سی او پی ڈی کی وجہ سے اموات میں کمی ایک اہم ہدف ہے۔