منگل, جولائی 8, 2025

متعلقہ خبریں

یہ بھی دیکھیں

کراچی: پاکستان میں گردوں کی پیوندکاری کرنے والے مراکز کی شدید کمی ہےڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسرمحمد سعید قریشی

کراچی :پاکستان میں سالانہ 20 سے 25 ہزار ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہےپاکستان میں ہم صرف ایک ہزار سے 1500 سالانہ ٹرانسپلانٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، پروفیسر سعید قریشی

کراچی : ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسرمحمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ پاکستان میں گردوں کی پیوندکاری کرنے والے مراکز کی شدید کمی ہے۔ پاکستان میں سالانہ 20 سے 25 ہزار ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہےلیکن ہم صرف ایک ہزار سے 1500 سالانہ ٹرانسپلانٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کڈنی ٹرانسپلانٹ کے منتظرہزاروں مریضوں کے وسیع تر مفاد میں ہمیں اس کا کوئی دیرپا حل تلاش کرنا ہوگا ۔

 

یہ باتیں انہوں نے ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کے رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں دوسرے بین الاقوامی رینل ٹرانسپلانٹ سمپوزیم سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ایک روزہ سمپوزیم سے فرانس سے آئے ہوئے رینل ٹرانسپلانٹ کے ماہر پروفیسر لائیونل راسٹنگ سمیت سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی ) سے پروفیسر سید فضل اختر ، پروفیسر اعجاز احمد (صدر پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی) ،پروفیسر روبینہ نقوی، ڈاکٹر سنیل کمار، ڈاکٹر محمد مبارک، ڈاکٹر خاور عباس،نیشنل میڈیکل سینٹر سے پروفیسر ایم۔ایچ۔عثما نی،

 

جناح اسپتال کراچی سے پروفیسر عبدالمنان جونیجو ،پیرعبدالقادر شاہ جیلانی انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزسے ڈاکٹر محمد خان بابر،کڈنی سینٹر کراچی سے ڈاکٹر عاصم احمد،آغا خان ہسپتال سے ڈاکٹر سونیایعقوب ،ڈاکٹر منصور شاہ ،ڈاکٹر فیصل محمود ،ڈاکٹر عائشہ حسن میمن ،ڈاؤ یونیوسٹی اسپتال سے ڈاکٹر امجد ستار ،ڈاکٹر محمد تصدق خان،ڈاکٹر ندیم احسن،میجر (ر )ڈاکٹر حامد محمود ،ڈاکٹر نرنجن لعل ،ڈاکٹر سباحت سرفراز ،ٹباء کڈنی انسٹیٹیو ٹ سے ڈاکٹر بلال جمیل ،

 

کراچی میڈیکل ایند ڈینٹل کالج سے ڈاکٹر خرم دانیال،انڈس اسپتال سے پرفیسر سلمان امتیاز ،ڈاکٹر اشعر عالم ،لیاقت نیشنل اسپتال سے ڈاکٹر فرزانہ عدنان ،لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز جامشوروسے ڈاکٹر پون کمار کوہستانی ، ساؤتھ سٹی اسپتال سے ڈاکٹر وقار الدین کاشف ،بحریہ اسپتال لاہور سے ڈاکٹر احد قیوم ،بحریہ اسپتال راولپنڈی سے ڈاکٹر نوید سرور ،ملتان انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز سے ڈاکٹر نیر سلیم اور پٹیل اسپتال کراچی سے ڈاکٹر شہنیلا جاوید نے بھی خطاب کیا۔

 

پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ ٹرانسپلانٹ مراکز کے ساتھ ہمارے یہاں اعضا کے عطیات کے متعلق بھی غلط تصورات ہیں، کہیں مذہبی وجہ عوام کے ذہنوں میں ہے تو کہیں کوئی اور وجہ ہے۔ مختلف شعبوں کے ماہرین کو جمع کر کے اعضا کے عطیات دینے کی ہمت افزائی کی جائے، جبکہ گردوں کی بیماری سے بچنے کے لیے احتیاط و اقدامات سے بھی عوام کو آگہی دی جانی چاہیئے۔

 

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں کڈنی، لیور اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولت کے ساتھ طب کے میدان میں ریسرچ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ انہوں نے ڈاکٹرز پر زور دیا کہ ہمیں اپنا بھی تجزیہ کرنا چاہیے کہ ہم نے اب تک کیا حاصل کیا ہے اور مستقبل قریب میں اس ٹرانسپلانٹ فیلڈ کوکیا چیلنجزدر پیش ہیں۔ اگر اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنا ہے تو اخلاقیات کی پاسداری کی اشد ضرورت ہے، طبی پیشہ صرف 24 گھنٹے ساتوں دن کا عہد نہیں ہے بلکہ یہ عطا کرنے اور دیکھ بھال کرنے کا پیشہ بھی ہے۔

 

مریض کو طبی امداد فراہم کرنے کے ساتھ مریض کے ساتھ دوستانہ سلوک بھی ڈاکٹر اور سرجن دونوں کے لیے ضروری ہے۔ طبی اخلاقیات کے اعلی اصولوں پر عمل کیا جائے۔ رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ کے سربراہ پروفیسر راشد بن حامد نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی میں گردے کی پیوند کاری کی کامیابی کی شرح نوے فیصد ہے جو اطمینان بخش ہے۔ ڈاکٹر تصدق خان نے کہا ڈاؤ رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ کے قیام سے اب تک 570 گردوں کی پیوند کاری کی جا چکی ہے۔ ان میں 557 افراد کی پہلی مرتبہ 12 افراد کی دوسری مرتبہ اور صرف ایک مریض کی تیسری مرتبہ پیوند کاری کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رینل ٹرانسپلانٹ یونٹ کراچی میں واقع ہونے کے باعث یہاں گردوں کا عطیہ دینے اور قبول کرنے والے 51 فیصد مریضوں کا تعلق صوبہ سندھ سے ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود 17 فیصد افراد پنجاب 20 فیصد بلوچستان اور دو فیصد افغانستان سے بھی لائے جاتے ہیں۔

 

ڈاؤ یونیورسٹی کے انچارج انٹروینشیل ریڈیالوجی پروفیسر امجد ستار نے کہا کہ گردے کا عطیہ دینے اور قبول کرنے والے اور پیوند کاری کے عمل میں ریڈیالوجی کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ دونوں افراد کے نگہداشت سمیت دیگر متعلقہ امور ریڈیالوجی کے ذریعے ہی انجام دیے جاتے ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے ڈاکٹر فیصل محمود نے کہا کہ پاکستانی معاشرے میں ٹی بی بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ گردے کی پیوند کاری کے بعد مریض ٹی بی کے شدید خطرے سے دوچار ہوتا ہے اس لیے ٹرانسپلانٹ کے مریض میں پہلے ہی ٹی بی ہونے کے خطرات کی جانچ کرا لی جائے اور ٹی بی کے فعال ہونے سے پہلے ہی اس کا علاج شروع کر دیا جائے۔

 

ایس آئی یو ٹی کے ڈاکٹر خاور عباسی نے "بی سیل ٹارگٹڈ تھراپی ان رینل ٹرانسپلانٹ” کی اہمیت پر خطاب کیا اور کہا کہ رینل ٹرانسپلانٹ کی کامیابی کے لیے یہ تھراپی بہت ضروری ہے. سمپوزیم کے آخر میں تمام اسپیکرز کو شیلڈز اور اسناد دی گئیں جبکہ پروفیسر لیونل راسٹنگ کو اجرک اور سندھی ٹوپی پہنائی گئی۔