کراچی (عمران پیرزادہ) ڈاکٹر رتھ کے ایم فاؤ سول اسپتال کراچی میں گزشتہ سال کینسر کی ادویات کی خریداری میں نصف ارب سے زائد کی خرد برد کی گئی ۔ یہ انکشاف آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی آڈٹ رپورٹ برائے سال 23-2022 میں کیا ہے۔
ہیلتھ ٹائمز کو حاصل آڈٹ رپورٹ کے مطابق سرطان ادویات کی خریداری میں 70 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد کی مبینہ خرد برد ،کتے اور سانپ کے کاٹے کی ویکسین کی مد میں 35 کروڑ 29 لاکھ 42 ہزار روپے ،انجکیشن وٹامن ڈی 3 کی مد میں 5 کروڑ 22 لاکھ، انجیکشن کولیسٹمیتھیٹ سوڈیئم 4 کروڑ 21 لاکھ 67 ہزار ، انجیکشن اسیکلور500ایم جی ایک کروڑ 54 لاکھ 91 ہزار ، انجیکشن پیراسیٹامول 93 لاکھ 57 ہزار ، انجیکشن ٹرلپرسنگ 1ایم جی اڑتالیس لاکھ 79 ہزار ، انجیکشن امیکیان 500 ایم جی 32 لاکھ 51 ہزار ، ٹیبلٹ پیراسیٹامول 500 ایم جی 19 لاکھ 57 ہزار جبکہ انجیکشن امونوگلبین 19 لاکھ 50 ہزار کی مبینہ خرد برد کی گئی ۔

آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال 22-2021 میں انتظامی سربراہ سول اسپتال کراچی کی جانب سے مذکورہ ادویات کی مختلف ٹھیکیداروں سے ایک ارب 24 کروڑ 46 لاکھ 20 ہزار روپے کی خریداری کی گئی۔ جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس پائے گئے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا رپورٹ میں کہنا ہے کہ مذکورہ ادویات کی خریداری سے متعلق تفصیلی جائزہ لیا گیا پہلے مرحلے میں مختلف ٹھیکیداروں سے متعلق چھان بین کی گئی جو کے مبینہ طور پر غیر منصفانہ اور سپرا رولز کے خلاف ٹھیکے دیئے گئے۔ سول اسپتال کراچی انتظامیہ سے ٹھیکیداروں کی جانب سے فراہم کردہ ادویات کا دستاویزی ریکارڈ طلب کیا گیا ادویات کی اسپتال میں آمد سے لیکر ریجسٹریشن نمبر بیچ نمبر و مزید ریکارڈ طلب کیا گیا جس میں سول اسپتال انتظامیہ مکمل ناکام رہی۔

رپورٹ کے مطاق مزید چھان بین کے دوران متعلقہ وارڈوں میں مقرر ڈاکٹروں فارماسسٹ سے مریضوں کو لکھے گئے نسخوں کے دستاویزی شواہد طلب کئے گئے اور تفصیلات حاصل کی گئیں تاہم تمام تر ریکارڈ کے مطابق مریض کے اسپتال میں داخلہ سے لیکر خارج ہونے تک سول اسپتال کراچی انتظامیہ ادویات کی مستحق و غیر مستحق مریضوں تک فراہمی دکھانے میں ناکام رہا ۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق مذکورہ ادویات تقسیم سے قبل چوری کرلی گئی یا ٹھیکیداروں سے ملی بھگت کے ذریعے اسپتال پہنچنے سے قبل ہی ٹھکانے لگادی گئی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق اگست 2022 میں محکمانہ آڈٹ کمیٹی( DAC/PAO ) کو مرزکورہ خورد برد سے متعلق آگاہی خطوط ارسال کردیئے گئے تھے تاہم آڈٹ رپورٹ جاری ہونے سے قبل تک (DAC/PAO) کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
واضع رہے کے سول اسپتال کراچی سرطان وارڈ میں ادویات کی شدید قلت کے باعث 80 کروڑ روپے کے فنڈز سی ایم ایل کی مد میں جاری کیے گئے تھے جبکہ سرطان وارڈ کا سالانہ بجٹ 8کروڑ 40 لاکھ ہے اسکے علاوہ سول اسپتال کراچی کا سالانہ ادویات خریداری کا بجٹ سوا ارب روپے ہے۔
یاد رہے کہ خرد برد کے عرصہ کے دوران سول اسپتال کراچی میں ڈاکٹر روبینہ بشیر اور ڈاکٹر گریش کمار اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹس رہے تھے جو اب ریٹائر ہو گئے ہیں تاہم ان سے تحقیقات اور پیسے واپس لے کر خرانے میں جمع کرانا حکومت کا کام ہے ۔