وزیر صحت سندھ ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا ہے کہ پپیتے اور اس کے پتوں کا استعمال ڈینگی کا علاج نہیں بلکہ اس سے اسہال کے خدشات میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے مریض کی حالت مریض تشویشناک ہوسکتی ہے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں ڈینگی اور ملیریا سے متعلق احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈینگی ایک وائرل بیماری ہے اور میں نے یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ پپیتا اور پپیتے کے پتے کا استعمال کر رہے ہیں جو غلط ہےکیونکہ پپیتے اور پپیتے کے پتوں کے استعمال سے ڈینگی پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑے گا بلکہ یہ اسہال کی وجہ بن سکتا ہے اورجسم کا پانی بھی ضائع ہو کر خطرناک صورتحال پیدا کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈینگی میں ایسپرین کا استعمال بھی کرنا مضر صحت ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ اس سے پیلیٹیلٹس کم ہوجاتے ہیں۔ڈینگی بخار کے لئے صرف پیناڈول استعمال کریں اور کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ پانی پئیں اس سے مشکلات میں کمی آسکتی ہے۔اگر پلیٹس مسلسل کم ہورہے ہیں تو اسپتال میں داخل ہو جائیں تاکہ آپ کی مانیٹرنگ کی جائے۔اگر پیلیٹیلٹس کاؤنٹ 60 ہزار تک پہنچ چکا ہے تو اس میں پیلیٹیلٹس لگوانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن اگر پیلیٹیلٹس پانچ سے چھ ہزار کے قریب ہیں اور خون بہنے کے خدشات موجود ہیں تو اس کے مدنظر پیلیٹیلٹس لگانا ضروری ہو جاتا ہے۔وائرس کے ختم ہوتے ہی یہ قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ پیلیٹ لیٹس خود بنائے،اگر ضرورت ہو تو ہی پیلیٹیلٹس لگانے چاہیے۔
انہوں نے مذید کہا کہ 17 ستمبر کو ڈینگی کے 386 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔رواں سال اب تک ڈینگی کے 5 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔3 ہزار سے زائد ڈینگی کیسز ستمبر میں رپورٹ کیے جاچکے ہیں۔کراچی میں ڈینگی کے 27 اموات رپورٹ ہوچکی ہیں جبکہ دیگر حیدر آباد سمیت دیگر اضلاع میں ڈینگی سے کوئی موت رپورٹ نہیں کی گئی ہے۔
17 ستمبر کو ملیریا کے لیے ہم نے چھ ہزار دو سو گیارہ اسکریننگ کی ہے جس میں سے ایک ہزار تین سو دس ملیریا کے مثبت کیسز رپورٹ کیے جاچکے ہیں۔رواں سال ملیریا کی 15 لاکھ سے زیادہ اسکریننگ کرچکے ہیں جن میں سے 1 لاکھ سے زائد مثبت کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ملیریا اور ڈینگی دونوں پر ہم جو ہے نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ دونوں بیماریاں جو ہے وہ مچھر اور پانی کے سبب ہیں اور ہم فیومیگیشن بھی کروا رہے ہیں اور پانی میں دوا بھی ملوا رہے ہیں۔