ماہرین امراض اعصاب نے کہا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 400 افراد فالج سے ہلاک ہو رہے ہیں جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ پاکستان میں ہر سال چار لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں،ہائی بلڈ پریشر،تمباکو نوشی اور ماحولیاتی آلودگی فالج کی اہم وجوہات ہیں،فالج کورونا سے دس گناہ زیادہ مہک ہے، پاکستان میں آئندہ برسوں میں فالج چوتھی بڑی بیماری بن جائے گا۔اس مرض پر قابو پانے کے لیے قومی سطح آگاہی اورسرکاری سطح پر اس کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے عملی ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان خیالات کا اظہار طبی ماہرین نے پاکستان اسٹروک سوسائٹی کےتحت مقامی ہوٹل میں منعقدہ تین روزہ دسویں قومی کانفرنس برائے فالج کے عوامی آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔کانفرنس سے ماہرین ِ اعصاب و دماغ پروفیسر ڈاکٹر واسع شاکر،ڈاکٹر عبد المالک،ڈاکٹر عارف ہریکر،ڈاکٹر بشیر سومرو،ڈاکٹر انجم فاروق،ڈاکٹر زاہد لطیف،معروف عالم دین مولانا ساجد جمیل،سینیئر صحافی عامر اشرف،حامد الرحمن اور دیگر نے خطاب کیا۔کانفرنس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔اس موقع پر معاشرے میں صحت سے متعلق آگاہی فراہم کرنے والے ڈاکٹرز ،صحافی اور سوشل ایکٹیوسٹ کو شیلڈز بھی دی گئیں۔
طبی ماہرین نے بتایا کہ ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن کے تحت اس سال عالمی یومِ فالج کو ” منٹ زندگی بچا سکتے ہیں”کا عنوان دیاگیا۔ قومی کانفرنس کا انعقاد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔مقررین نے کہا کہ آج کی کانفرنس کا مقصد فالج کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنا ہے، پاکستان میں روزانہ 400 افراد فالج سے ہلاک ہو رہے ہیں جو ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ پاکستان میں ہر سال چار لاکھ افراد فالج کا شکار ہوتے ہیں،ہائی بلڈ پریشر،تمباکو نوشی اور ماحولیاتی آلودگی فالج کی اہم وجوہات ہیں،فالج کورونا سے دس گناہ زیادہ مہک ہے، پاکستان میں آئندہ برسوں میں فالج چوتھی بڑی بیماری بن جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں45سال تک کی عمر کے لوگوں میں فالج کے حملے کی شرح سب سے زیادہ ہےجبکہ پاکستانیوں کودنیا بھرکے مقابلے میں 10برس پہلے فالج کا مرض لاحق ہوجاتا ہے ، فالج کی علامات میں بولنے کی صلاحیت متاثر ہونا، چہرے کا ایک طرف ڈھلک جانا، ٹانگ کا کمزور یا سن ہوجانا، چکر آنا، چال میں لڑکھڑاہٹ، اچانک بینائی متاثر ہونا، یاداشت کا کھونا، اچانک تیز سردرد یا بے ہوش ہوجانا ودیگر شامل ہیں ۔ فالج کے خطرے کو کم کرنے کےلئے بلڈ پریشر اورشوگر کو کنٹرول میں رکھیں، خون کی چربی کی مقدارکم کریں ، غذا میں بڑ ا گوشت اور چکنائی سے پرہیزکریں جبکہ روزانہ کم از کم 15دن 30منٹ کی واک کی جائے تو فالج کے خطرے کو20فیصد کم کیا جاسکتا ہے۔
یہ ایک قاتل مرض ہے،اس کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے،اگر کسی کو فالج ہوبھی جائے تو وہ ڈاکٹرکے پاس جانے کے بجائے ٹوٹکوں سے کام لینا ہے بلوچستان میں تو اس کے علاج کے لیے چلہ کشی کی جاتی ہے،ہمیں قومی سطح پر اس مرض سے آگاہی کے لیے کوشش کرنی چاہیے،سرکاری سطح پر اس مرض کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے عملی ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔فالج کے حوالے سے ٹیلی اسٹروک کے آغاز کی ضرورت ہے۔ جب تک اس مرض کے حوالے سے عوام میں آگاہی نہیں ہوگی مرض قابو میں نہیں آئے گا۔اگر اس مرض کے بروقت تشخیص کرلی جائے تو معذوری سے بچا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دنیا میں فالج موت کی دوسری اہم وجہ بن چکا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس مرض کے حوالے سے اپنی کنفیوژن دور کرنی ہے،آگاہی کے ذریعے ہی اس مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ سرکاری ہسپتال میں فالج کا یونٹ ہی قائم نہیں جو نیورولوجسٹ ہیں انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے،اس مرض کے حوالے سے نہ حکومت سوچتی ہے اور نہ عوام میں آگاہی ہے۔میڈیا فالج کی آگاہی کے لیے اپنے دائرے میں کام کر رہا ہے اس مرض کے حوالے سے ٹاک شوز ہونے چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ فالج سے روزانہ 400افراد ہلاک ہوتے ہیں اگر یہی تعداد بم دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی ہوتو بریکنگ نیوز چل جاتی ہے۔ڈاکٹر کے بعد سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہے،سیاسی اور سماجی طور پر آج ہر شخص پریشان ہے،کئی بیماریوں کا علاج خود مریض کے پاس ہوتا ہے،آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ڈاکٹر ز کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ تھوڑا سا وقت نکال کر اس حوالے سے ویڈیو بنا کر آگاہی فراہم کریں۔