ماہرین صحت نے کہا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض وبائی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ نوے لاکھ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں جب کہ ذیابیطس سے سالانہ چار لاکھ افرادجاں بحق ہو رہے ہیں،اس مرض کی وجہ سے سالانہ دو لاکھ سے زائد افراد اپنی ٹانگیں کٹنے کے نتیجے میں معذوری کا بھی شکارہوجاتے ہیں، حکومت مرکزی سطح پر نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے اورتمام صوبائی حکومتوں اوراسٹیک ہولڈر کواس پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنایا جائے اس پلان کے تحت ذیابیطس، بلڈ پریشر سمیت فالج، ذہنی صحت، کینسر اور ری ہیبلی ٹیشن(بحالی) کیلئے خصوصی توجہ دی جائے۔ ذیابیطس و بلڈ پریشر کی ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد کمی کی جائے۔
پیما ہاؤس کراچی میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(پیما)کراچی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبد اللہ المتقی، اسسٹنٹ سیکریٹری الخدمت ہیلتھ فاؤنڈیشن پاکستان ڈاکٹر عبد المالک،کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے ہیڈ آف میڈیسن ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر قیصر جمال اورڈائریکٹر ہیلتھ الخدمت کراچی ڈاکٹر ثاقب حسین نے پریس کانفرنس کی ۔ اس موقع پر ان ماہرین کا کہنا تھا کہ ہر سال14نومبر کو ذیابیطس کا عالمی دن منایا جاتا ہے،امسال یہ دن”ذیابیطس کی روک تھام تک رسائی "کے زیر عنوان منایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ڈی ایف ذیابیطس اٹلس کےدسویں ایڈیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطس کے پھیلاؤ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو کہ افراد، خاندانوں اور معاشروں کی صحت اور بہبود کے لیے ایک اہم عالمی چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔537 ملین بالغ یعنی ہر دس میں سے ایک فرد، (20-79 سال) ذیابیطس کا شکارہے اور یہ تعداد 2030 تک 643 ملین اور 2045 تک 784 ملین تک بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جنوب مشرقی ایشیاء میں 90 ملین ذیابیطس کے شکار بالغوں کی تعداد 2045 تک بڑھ کر 152 ملین تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جو کہ موجودہ اعداد و شمارکے مقابلے میں 68 فیصد اضافہ ہے۔
آئی ڈی ایف ذیابیطس اٹلس میں یہ بھی رپورٹ پیش کی گئی ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کا پھیلاؤ 17.1فیصد تک پہنچ گیا ہے، جو پہلے کے مقابلے میں 148فیصد زیادہ ہے۔ 2019سے، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 19 ملین سے زائد بالغ افراد ذیابیطس میں مبتلا ہیں جس سے ان کی زندگی کے خطرے میں ہے۔2021میں دنیا بھر میں ذیابطیس سے 67 لاکھ افراد ذیابطیس سے جاں بحق ہو سکتے ہیں یعنی ہر پانچ سیکنڈ میں ایک موت۔ انہوں نے کہا کہ پرائمری تعلیمی نصاب میں صحتمند زندگی کی اہمیت، صحت مند خوراک، دانتوں کی صفائی، ہر قسم کی تمباکو نوشی /منشیات کے استعمال کی تباہ کاریوں کے متعلق بچوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بیماریوں، معذوری اور قبل از وقت اموات سے بچا سکیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت مصنوعی میٹھے مشروبات پر ٹیکس کو بڑھائے اور اسکی آمدن ان امراض کے علاج کی سہولیات کے اضافے پر خرچ کرے،تمام غیر متعدی امراض بالخصوص ذیابیطس و بلڈ پریشر کی ادویات کی قیمتوں میں 25 فیصد کمی کی جائے نیز تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتالوں میں ان ادویات کی مفت و معیاری فراہمی یقینی بنائی جائے۔شوگر کے مرض سے بچاؤ اور جلد تشخیص کے حوالے سے ملک گیر سطح پر حکومت آگہی مہم کا اجراء کرے۔ اس ضمن میں کرونا کے متعلق آگہی کی عملی مثال سامنے ہے اس طرز پر ملک گیر سطح پر ذیابطیس کیلئے پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جائے۔ اس پروجیکٹ کو ملک کے چاروں صوبوں اور دیگر علاقوں تک پھیلایا جائے۔
حکومت کو چاہئے کہ ہر سال نومبر کا پورا مہینہ ذیابطیس کی آگہی کیلئے وقف کرے۔ اس ضمن میں موبائل کمپنیوں کو اس مرض کے متعلق مستند معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بنایا جائے۔ پاکستان میں پیرا میڈیکل اسٹاف کے لیے ذیابطیس کے مریضوں کے زخموں کی مرہم پٹی کرنے کی تربیت فراہم کی جائے تاکہ شوگر کے نتیجے میں ہونے والے زخموں کی صحیح نگہداشت کے ذریعے ہزاروں افراد کی ٹانگیں کٹنے کے نتیجے میں معذوری سے بچایا جا سکے۔معاشرے میں صحت مندانہ طرز زندگی اور متوازن غذا کے حوالے سے شعور بیدار کرنا لازمی عمل ہے کیونکہ کروڑوں پاکستانی اس موذی امراض میں مبتلا ہونے کے بعد موثر علاج کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔اس مرض کی تشخیص و اس سے منسلک دیگر تشخیصی ٹیسٹ کی قیمتوں اور بالخصوص انکے معیار پر حکومتی متعلقہ اداروں کو چیک اینڈ بیلنس کا موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔